اربعینِ امام حسین(ع) کی وحدت بخش ثقافت کوامت مسلمہ میں ہمیشہ جاری رہنا چاہئے؛متولی حرم امام رضاؑ

حرم امام رضا علیہ السلام کے متولی نے اہلسنت علماء و زائرین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اربعین امام حسین علیہ السلام کی تعلیمات اور ثقافت،ایثارومحبت،ہمدردی اور اتحاد و یکجہتی پر مشتمل ہے ،آج ہمیں اربعین کی وحدت بخش ثقافت کو امت مسلمہ میں فروغ دینے اور جاری رکھنے کی ضرورت ہے اس لئےاگرچہ اربعین ملیین مارچ ختم ہو گیا ہے لیکن اس ثقافت کو ہرگز ختم نہیں ہونا چاہئے۔

عتبہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ حجت الاسلام والمسلمین احمد مروی نے ماہ صفر کے آخری عشرہ میں حرم امام رضا(ع) کی زیارت کے لئے مشرف ہونےوالے علمائے اہلسنت اور زائرین سے خطاب کرتے ہوئے حدیث ثقلین پر روشنی ڈالی اور کہا کہ پیغمبر گرامی اسلام(ص) نے انسانیت کی ہدایت کے لئے دو گرانقدر چیزیں یعنی قرآن اور اہلبیت(ع) کو اپنے بعد چھوڑا اور آج یہ دونوں انسان دشمن طاقتوں کے نشانے پر ہیں  

انہوں نے مغربی ممالک میں قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کے حالیہ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک، دو ارب سے زائد انسانوں کے عقائد اور مقدسات کی بڑی آسانی سے توہین کرتے ہیں اور اظہار آزادی رائے اور آزادی عقائد کے بہانے اپنے اہانت آمیز اقدامات کا جواز پیش کرتے ہیں لیکن انہی مغربی ممالک میں کوئی ہولوکاسٹ کے بارے میں سوال کرنے اور ان سے متعلق تاریخی دستاویزات کی درخواست کرنے کی جرات نہیں رکھتا،کس طرح سے قرآن کا جلانا آزادی اظہار رائے  تو ہو لیکن ہولوکاسٹ کے بارے میں سوال پوچھنا جرم ہے ؟

حرم امام رضا(ع) کے متولی نے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعددا اورمسلمانوں کو خدا کے عطا کردہ قدرتی وسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک چھوٹا سا یورپی  ملک مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کرتا ہے ، دو ارب سے زائد مسلمانوں کے سامنے کھڑا ہونے کی جرات کرتا ہے اور قرآن کریم کو جلانے جیسا گھناؤنا فعل باقاعدگی سے انجام دیتا ہے یہ سب کچھ اس لئے ہے کیوں کہ مسلمان آپس میں متحد نہیں ہیں۔

انہوں نے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ ہم سب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن ہمارے دل ایک دوسرے سے جدا ہیں ،قرآن و اہلبیت سے بہتر اور کونسی چیز مسلمانوں کو آپس میں متحد کر سکتی ہے ؟ دوارب سے زائد مسلمان اور خدا کے عطا کردہ بے پناہ قدرتی ذخائر اور وسائل سے پوری دنیا کو چلا سکتے ہیں ،مسلمانوں میں اس طرح سے باہمی یکجہتی ہونی چاہئے کہ دشمن خدا اور دشمن دین ؛مسلمانوں کی توہین کرنے کی ہرگز جرات نہ کریں۔

حجت الاسلام والمسلمین مروی نے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلانے کو دشمنان اسلام کی مستقل سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ چہلم امام حسین علیہ السلام امت مسلمہ کے اتحاد کاایک نمایاں مصداق ہے جس میں پوری امت مسلمہ آئمہ اطہار(ع) کے عشق میں اکھٹی ہوتی ہے ،زیارت اربعین   آیہ شریفہ  «قُل لا أَسأَلُكُم عَلَيهِ أَجرًا إِلَّا المَوَدَّةَ فِي القُربی» کا مظہر ہے ، حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کے چہلم کی برکت سے ،امت مسلمہ کی عظمت کے ساتھ مسلمانوں  میں  ہمدردی اور اتحاد و یکجہتی کی ایک نئی تہذیب تشکیل ہورہی ہے ،اربعین مارچ میں اہلسنت اور شیعوں کے علاوہ غیرمسلم جیسے ہندو،بدھ مت کے وغیرہ کے پیرو بھی شرکت کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اربعین واک؛پوری دنیا میں ایک منفرد واقعہ ہے  اور تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی جس میں ہمدردی، اتحاد اور ایثار کے ساتھ ایسا عظیم الشان اجتماع ہو جو ہر سال گزشتہ سال سے زیادہ جوش و خروش سے منعقد ہوتا ہو

انہوں نے ۔ہمیں اسلامی معاشرے میں اربعین کی ثقافت کو پھیلانا چاہیے جو کہ ہمدردی  اور ایک دوسرے سے محبت پر مشتمل ہے ، اربعین کے  اختتام کے ساتھ اربعین واک ختم ہو جاتا ہے لیکن اربعین کا کلچر جو کہ محبت، ایثار، فدکاری، ہمدردی اور اتحاد کا کلچر ہے، جاری رہنا چاہیے۔

حرم امام رضا علیہ السلام کے متولی نے چہلم امام حسین علیہ السلام پر کئے جانے والے بعض اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے کچھ لوگ جو بظاہر مسلمان ہیں لیکن اربعین کے بارے میں وہم کی بیماری میں مبتلا ہوگئے ہیں،اربعین پر سوال اٹھاتے ہیں؛اربعین واک امت مسلمہ کے اتحاد اور عوامی تحریک کا مظہرہے ،جو لوگ اس  ملین مارچ  میں شریک ہوئے انہوں نے دیکھا کہ کس طرح سے عوام اربعین واک کا انتظام کرتے ہیں اور اس کے لئے خرچ کرتے ہیں ۔

حرم امام رضا علیہ السلام کے متولی نے کہا کہ علمائے کرام اور مبلغین اسلام کو حقائق بیان کرنے میں شجاعت و بہادری سے کام لینا ہوگا اگر پوری تاریخ میں علمائے کرام حقائق بیان کرنے کا موقف اختیار نہ کرتے تو آج اسلام کا نام و نشان بھی نہ ہوتا ،آج بھی علمائے کرام کے کندھوں پر یہ عظیم ذمہ داری ہے ۔

حجت الاسلام والمسلمین مروی نے سورہ البقرہ کی آیت نمبر159 کی تلاوت کرتے ہوئے ،جس میں حق کو چھپانے والوں پر خدا نے لعنت کی ہے کہا کہ شیعہ و سنی علمائے کرام پر حقائق کو واضح بیان کرنےکی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ،اگر آج علمائے کرام اپنے علم کو نہیں پھیلاتے اور خاموشی اختیار کرتے ہیں تو کیا آیت قرآن کی ملامت اور خطاب ان کی طرف متوجہ نہیں ہوگا؟اگر علمائے کرام معاشرے میں حقائق بیان نہیں کر یں گےتو نوجوان نسل’’ ابن تیمیہ‘‘ کی کتب کی پیروی کرے گی، ابن تیمیہ جوکہ یزید کو خدا کا ولی مانتا تھا ۔

انہوں نے قرآن کریم کی آیت «الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ وَكَفَى بِاللَّهِ حَسِيبًا» کی تلاوت کرتے ہوئے کہا کہ  الہی مشن کی تبلیغ اور انحرافات کے خلاف کھڑے ہونے میں، خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرنا چاہئے؛ اگر سنی علماء اس وقت "ابن تیمیہ" کے منحرف افکار کے خلاف کھڑے نہ ہوتے تو آج "سنت" نام کی کوئی چیز نہ ہوتی۔
حرم امام رضا علیہ السلام کے متولی نے آئمہ معصومین علیہم السلام سے محبت کو تمام اسلامی مذاہب کی مشترکہ خصوصیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ پوری امت مسلمہ آئمہ معصومین علیہم السلام سے محبت کرتی ہے اور قرآن و اہلبیت سے دور ہونے کا نتیجہ داعش کی تشکیل ہے جس کا نتیجہ ہم نے دیکھا کہ شام میں جو کہ ایک سنی ملک کے ہے اور عراق خصوصاً موصل کا علاقہ جہاں اکثریت اہلسنت کی ہے داعش نے کون کون سے جرائم انجام دیئے ۔

حجت الاسلام والمسلمین مروی نے علمائے اہلسنت کی امام رضا(ع) سے عقیدت و محبت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امام رضا علیہ السلام امت مسلمہ میں وحدت کا مرکز ہیں،اہلسنت کے بزرگان نے   امام روؤف حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کے بارے میں جو کہا ہے وہ قابل توجہ ہے ،امام رضا علیہ السلام سے محبت فقط شیعوں تک محدود نہیں ہے بلکہ آئمہ معصومین علیہم السلام جو کہ رسول اللہ کی اولاد ہیں اہلسنت بھائیوں کے دلوں میں خاص مقام رکھتے ہیں۔
 

News Code 2205

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha