آستان نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ آستان قدس رضوی میوزیم میں رکھے گئے تمام فن پاروں کے انتخاب کے لئے ماہرین نے آستان قدس رضوی کے قیمتی ترین قرآنی نسخوں اور خاص اور قیمتی کتب کا انتخاب کر کے اہل علم حضرات کے دیکھنے کے لئے میوزیم میں رکھے ہیں۔
آستان قدس رضوی کے قرآنی خزانے میں سن دو ہجری سے اب تک کے قیمتی اور نایاب قرآنی نسخے پائے جاتے ہیں جن میں قرآن مجید کا ایک شاندار مجموعہ جسے کوفی رسم الخط کے ساتھ چمڑے پر تحریر کردہ قرآنی نسخے ہیں اس مجموعہ کی تحریر کو آئمہ اطہار(ع) سے منسوب کیا جاتا ہے ،یہ مجموعہ تاریخی لحاظ سے ایک ہزار سال پرانا ہے جسے شاہ عباس صفوی اوراہلبیت(ع) کے عقیدت مندوں نے حرم امام رضا(ع) کے لئے وقف کیا ہے اس قرآنی مجموعہ کے بعض قرآنی نسخوں کا وقف نامہ شیخ بہائی کے توسط سے لکھا گیا ہے یہ اس میوزیم کا منفرد مجموعہ ہے جس سے اسلام کے ابتدائی ادوار کے رسم الخط کی تبدیلی اور ارتقا کا پتہ چلتا ہے ۔
قرآنی میوزیم کے بارے میں گفتگو کرنا درحقیقت کلام خدا کے بارے میں بات چیت کرنا ہے اس لئے آستان قدس رضوی کی سینٹرل لائبریری کے محقق اور خطی نسخوں کے ماہر استاد محمد وفادار مرادی کے ہمراہ بسم اللہ پڑھتے ہوئے قرآنی میوزیم میں داخل ہوتے ہیں۔
بغیر نکتہ والی کتابت سے لے کر شنگرف(سنہری نقاط) کے اضافہ تک
انہوں نے اسلام کے ابتدائی ادوار میں قرآن کریم،احادیث اور دیگر متون میں نقطے نہ پائے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ عربوں میں متون میں نقطے لگانے کو سامنے والے کی توہین سمجھا جاتا تھا اور ذہن میں یہ شبہہ پیدا ہوتا تھا کہ سامنے والا آیات قرآن کو صحیح پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
لیکن بعد میں دوسرے بزرگوں نے جن میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے شاگرد جیسے ابوالاسود دوئلی،کتاب العین کے مصنف جناب خلیل بن احمد فراہیدی اور کئی دوسرے عجمیوں نے آئمہ اطہار(ع) سے منسوب قرآنی نسخوں میں اعراب(حرکات) کا اضافہ کیا۔
کوفی رسم الخط قرآن کی کتابت کا آغاز
اسلام کے ابتدائی ادوار میں کوفی رسم الخط پہلا رسم الخط ہے اور ان چند صدیوں میں جس خط میں قرآن کی کتابت کی گئی وہ زیادہ تر خط کوفی تھا خواہ وہ خط کوفی حجازی،مشرقی،کوفی سادہ یا دوسرے کوفی رسم الخط ہوں ۔
انہوں نے رسم الخط کی پیدائش کے سفر کے جائزہ کو امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب (ع) سے منسوب قرآنی نسخہ سے شروع کیا جسے کوفی معرّب غیرمشکول رسم الخط کے ساتھ کتابت کیا گیا ہے ۔
جناب وفادار نے آئمہ اطہار(ع) سے منسوب قرآنی نسخوں کی کتابت کو پرانا کوفی رسم الخط قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں امیرالمومنین حضرت علی(ع) سے منسوب قرآنی نسخہ میں ’’کتب علی ابن ابی طالب‘‘ کوفی رسم الخط کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے ۔
اہلبیت (ع) سے منسوب قرآنی نسخے مکمل نہیں ہیں
استاد محمد وفادار مرادی کا کہنا تھا کہ آئمہ معصومین علیہم السلام سے منسوب قیمتی قرآنی نسخے کامل نہیں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آئمہ سے منسوب قرآنی نسخوں کی کتابت چمڑے کے صفحات پر ہوئی ہے اور جلد بندی نہ ہونے کی وجہ سے انہیں لکڑی کے ڈبوں یا کپڑے کے تھیلوں میں رکھا جانا عام تھا اور گذشتہ صدیوں میں تبرک کے عنوان سے ان کے بہت سارے اجزاء اور صفحات بکھر گئے اسی لئے یہ قیمتی خزانہ کامل نہیں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ رضوی خزانے میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے منسوب قرآن کریم کے فقط بارہ پارے موجود ہیں اور تقریباً دس پارے یمن کی جامعۃ الصنعاء کی لائبریری میں اور چند ایک دوسرے پارے ترکی کی ایاصوفیا لائبریری میں پائے جاتے ہیں۔
استاد وفادار نے حسنین شریفین (ع) سے منسوب قرآنی نسخوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن میں کتابت ایک جیسی ہے کہا کہ اہلبیت(ع) کے عقیدت کے توسط سے اس تحریری ورثہ پر شنگرفی نقاط (سنہری نقاط)سے اعراب گذاری کی گئی ہے ۔
اعراب کا نہ ہونا؛معانی کی غلط تشریح کا باعث
بہت سارے ممالک کو فتح کرنے کے بعد کئی زمینیں اسلامی جغرافیہ میں داخل ہوئیں جن میں ایرانیوں کی طرح کچھ ایسے تھے جو عربی نہیں جانتے تھے یہ افراد احکام دین کو سیکھنے کے لئے روزانہ قرآن کا مطالعہ کرتے تھے اور قرآن کریم کی آیات کی تلاوت جن پر نہ نقطے ہوتے اور نہ ہی اعراب بہت سخت تھی۔
استاد وفادار مرادی نے کہا کہ قرآنی آیات کے اعراب میں خاص طور پر کلمات کے آخر میں تبدیلی بعض اوقات کفر و ایمان تک جا پہنچتی اور آیات کے معانی کو توحید سے کفر و الحاد میں تبدیل کر دیتے ، اس آیہ شریفہ میں «اِنّ اللهَ بَریّ مِن المشرکین و رسولَه(توبه۳)» اگر رسول کی لام کے نیچے زیر کے ساتھ تلاوت کی جائے تو کاملاً معنی غلط اور ناصحیح ہوگا اور اسی طرح کلمہ ’’تتلو‘‘ ممکن تھا کہ مختلف صورتوں جیسے «یتلوا» «تتلوا» و «نبلوا» پڑھا جاتا۔
اعراب گذاری میں ’’شنگرف‘‘ کا استفادہ
اسی چیز کو مدّ نظر رکھتے ہوئے حضرت امام علی علیہ السلام کے شاگردوں نے قرآن کریم پر اعراب گذاری کا کام شروع کیا ، شروع میں یہ اعراب گذاری زیر یا زبر وغیرہ کے ساتھ نہیں تھی بلکہ فقط شنگرف نقاط کے ساتھ انجام پائی اور تنوین کی جگہ دو شنگرفی نقطہ حرف پر پائے جاتے تھے یہ کام امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے شاگرد ابوالاسود دوئلی اور ان کے شاگردوں کے توسط سے انجام پایا۔
آستان قدس رضوی کی سینٹرل لائبریری کے محقق اور خطی نسخوں کے ماہر ج وفادار مرادی نے بتایا کہ آئمہ معصومین علیہم السلام سے منسوب قرآنی نسخوں میں موجود سرخ نقطہ جسے اصطلاح میں شنگرف کہا جاتا ہے قرآن پر کی جانے والی پہلی اعراب گذاری ہے ۔
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت میں ایرانیوں نے بھی نمایاں کردار ادا کیا، گذشتہ مشہور شخصیات میں ’’یزید فارسی‘‘ اور ’’خلیل بن احمد فراہیدی‘‘ جو کہ بصرہ کے رہنے والے تھے اور اصل میں ایرانی تھےانکا نام سر فہرست ہے جنہوں نے الفاظ کی حرکات کو جدید انداز میں متعارف کروایا۔
آپ کا تبصرہ