پہلے مسلمان سیّاح ’’ابن بطوطہ ‘‘کی زبانی حرم امام رضا(ع) کی داستان

ایک وقت تھا جب دنیا کی سیر اور سیاحت کرنا ایک ایسی خواہش تھی جس کا پورا ہونا ہر کسی کے نصیب میں نہيں ہوتا تھا کیونکہ اس دور میں ایک فرسخ کا سفر طے کرنے میں پورا دن لگ جاتا تھا ،یہی وجہ تھی کہ جب بھی اس دور میں کوئی شخص سفر پر نکلتا تو سفر کی داستان اور سرگذشت کو ضرور ر قلمبند کرلیتا تاکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں سفر کی حسرت ہے لیکن سفر پر جا نہیں سکتے وہ اسے پڑھ کر اپنے خیالات اور تخیلاتی دنیا میں سیر کرکے دور دراز کے علاقوں اور وہاں بسنے والوں کی زندگی اور طرز زندگی سے آشنائي حاصل کرسکیں

عتبا نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ تاریخی دستاویزات کی بنیاد پر بہت سارے جہان گرد سیّاحوں نے خراسان میں بھی قدم رکھا ان میں ہسپانوی بنیامین اور وینیز کے مشہور سیّاح مارکوپولو کا نام سرفہرست  سیاحوں ميں شامل ہے  جنہوں نے سرزمین خورشید کی سرحدیں عبور کرتے ہوئے مشہد مقدس کے سفر کا بھی ذکر کیا ہے لیکن ان دوسیّاحوں نے مشہد مقدس کے بارے میں کوئی خاص مطلب تحریر نہیں کیا، مثال کے طور پر ۶۷۱ہجری شمسی میں جب مارکوپولو خراسان پہنچا تو اس نے جوکچھ بیان کیا وہ ایسے ہی تھا جیسے ناصر خسرو نے اپنے سفر نامہ میں ایران کے دو شہروں تون و طبس کے بارے میں تحریر کیا تھا اور فقط یہ تحریر کرنے پر اکتفا کیا  کہ ’’خراسان کی آب و ہوا خشگوار ہے اور یہاں کے لوگ پیار و محبت سے پیش آتے ہیں‘‘۔

ابن بطوطہ کی زبان سے

مارکوپولو کے ایران آنے کے تیس سال بعد جب ونیز سے تعلق رکھنے والے اڈریک؛ فرانسسکن خانقاہوں کو دیکھنے کے لئے ایران کے راستے  چین جا رہے تھے تو وہ بھی ایران سے گزرے لیکن انہوں نے بھی اس شہر کے بارے میں کچھ نہ لکھا کیوں کہ ان کا سفر مغلوں کے خراسان پر حملے اور تباہی کے بعدکے دور کا  تھا،یہی وجہ ہے کہ مشہد مقدس اور حرم امام رضا علیہ السلام کے بارے میں پہلی تفصیل اور توصیف ابن بطوطہ کے سفرنامہ میں پائی جاتی ہے کیونکہ اس دور میں کسی غیرمسلم کو حرم امام رضا(ع) میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی اور ابن بطوطہ کو مسلمان ہونے کی وجہ سے با آسانی حرم امام رضا(ع) میں داخل ہونے کی اجازت ملی اور انہوں نے حرم میں موجود ہر چیز کی تصویر کشی کی۔

تاریخی مکتوبات میں ابوعبدا... بن محمد بن‌ابراهیم طَنْجی (۷۰۳ تا ۷۷۰ہجری قمری) جو کہ ابن بطوطہ کے نام سے مشہور ہیں اور بعض مؤرخین نے انہیں ’’عالم اسلام کے مارکوپولو‘‘ کا لقب دیا ہے ان کا سفر جو کہ تقریباً ۲۷ سالوں پر مشتمل تھا وہ اپنے اس سفر کے دوران ۷۳۴ہجری قمری(۷۱۲شمسی) میں مشہد مقدس پہنچتے ہیں اور زیارت سے مشرف ہوتے ہیں۔

ان کے سفر نامہ کی فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی بار ابن بطوطہ نے مشہد کا تذکرہ طوس پہچنے سے پہلے ایران کے شہر تربت جام میں کیا جس میں انہوں نے مغلوں کے حملہ اور تباہی کا ذکر کیا وہ لکھتے ہیں’’آخر کار طغاثمور۵۰ ہزار مغلوں کے ساتھ سربہ  داران کے خلاف جنگ کے لئے نکلا لیکن اس باراسے شکست ہوئی اور خراسان کے سب سے بڑے شہر سرخس،زاوہ اور طوس سریہ داروں کے خلیفہ کے ہاتھ میں چلے گئے اور ان کا خلیفہ مشہد مقدس مستقر ہو گیا‘‘۔

 ایک اور دلچسپ بات جو ان کے سفرنامہ میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی مشہد کا نام اکیلا نہیں لیا بلکہ ہمیشہ ’’مشہد امام رضا(ع)‘‘ یا ’’مشہد علی بن موسیٰ الرضا(ع)‘‘ کے ساتھ تحریر کیا ہے ۔

مثال کے طور پر ابن بطوطہ جب مشہد مقدس پہنچے اور قیام کیا تو سب سے پہلے انہوں   نے امام کے نسب کو یاد فرمایا اور اس طرح تحریر کیا’’طوس سے مشہد امام رضا(ع) آیا ہوں،ان کا نسب کچھ یوں ہے : علی بن موسیٰ، الکاظم بن جعفر،الصادق بن محمد،باقر بن علی،زین العابدین بن حسین شہید بن امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب(ع)‘‘۔

 اس کے بعد ابن بطوطہ نے مشہد مقدس کے نقیب سے اپنی ملاقات کا احوال کچھ یوں بیان کیا’’اس شہر میں طاہر محمد شاہ سے ملاقات کی ،طاہر کا اس شہر میں عنوان وہی ہے جسے مصر و شام و عراق میں’’نقیب‘‘اور سندھ و ہند و ترکستان میں ’’سید اجل‘‘ کہتے ہیں۔

انہوں نے حرم امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے بارے میں کچھ  یوں تحریر  کیا :’’مشہد مکرم امام رضا(ع ) یا  (امام رضا علیہ السلام کے حرم  ) کا بہت بڑا گنبد ہے امام کی قبر ایک کونے کے اندر ہے جس کے ساتھ ایک مکتب اور مسجد ہے اور یہ تمام عمارتیں نہایت خوبصورت انداز میں بنائی گئی ہیں ان کی دیواروں پر کاشی اور ٹائلز لگی ہوئی ہیں اور قبر کے اوپر لکڑی کی ضریح ہے ۔ اس ضریح کی سطح کو چاندی کی تختیوں سے ڈھکا گیا ہے گنبد کی چھت سے چاندی کی قندیلیں لٹک رہی ہیں،مزار کا دروازہ بھی چاندی سے بنا ہوا ہے اورابریشم کا پردہ جس پر زردوزی کا کام ہوا ہے  جو اس کے سامنے آویزاں ہے،مزار کے اندر مختلف قسم کی قالینیں بچھی ہوئی ہیں، قبر امام کے سامنے قبر ہارون الرشید ہے جس پر بھی ایک صندوق بنا ہوا ہےامام کی قبر پر شمعیں اور چراغ رکھے جاتے ہیں اور جب زائرین مزار میں داخل ہوتے ہیں تو ہارون کی قبر کو لات مارتے ہوئے امام رضا(ع) کو سلام کرتے ہیں‘‘۔

اہم نکتہ

ضریح مطہر سے پہلے امام رضا(ع) کی قبر مطہر کو صندوق سے ڈھانپا جاتا تھا ،تاریخی مکتوبات کے لحاظ سے قبر مطہر کے لئے مخصوص صندوق تعمیر کیا گیا تھا اور جس صندوق کا ابن بطوطہ نے ذکر کیا ہے وہ دوسرا صندوق تھا جسے قبر امام کے لئے تعمیر کیا گیا تھا جو کہ شاہ عباس کے دورحکومت تک قبر مطہر پر باقی تھا۔اس صندوق کو کس نے بنوایا اس سلسلے میں ’’الثاقب فی المناقب(تألیف حدود ۵۶۰ قمری)‘‘ کتاب میں تحریر ہے کہ انوشیروان مجوسی اصفہانی جب پیسی کی بیماری میں مبتلا ہوا  تھا  تو وہ امام رضا(ع) کے مزار پر   آکر گریہ و زاری کرتا ہے اور حضرت امام رضا(ع) اسے شفا دیتے ہیں جس کے بعد وہ امام کی قبر مطہر پر صندوق بنواتا ہے جس کو چاندی کی تختیوں سے تزئین کیا گیا تھا اور اس کے اوپر چاندی کے چارخوبصورت ٹکڑے بھی تھے۔

علی سعیدیان

 

News Code 589

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha