غزہ؛ صیہونی ریاست اور مغربی منافقت کی شکست کا منظر ہے؛آیت اللہ مروی

آستان قدس رضوی کے متولی نے اس بیان کے ساتھ کہ غزہ میں اسرائیلی ریاست اپنے اعلان کردہ کسی بھی ہدف میں کامیاب نہیں ہو سکا کہا کہ صیہونی حکومت غزہ میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اورانسانی حقوق کے دعویدار مغربی ممالک نے نہ صرف اسرائیل کی جانب سے بے دفاع عوام پر وحشیانہ حملوں کے خلاف کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا بلکہ اسرائیل کی اسلحے ،سیاست اور تشہیری حمایت کے ساتھ اس کا دفاع کیا اور اپنا حقیقی چہرہ سب کو دکھا دیا ہے ۔

آستان نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ مؤرخہ 19 جنوری2025 بروز ہفتہ کو حضرت احمد بن موسیٰ الکاظم شاہ چراغ(ع) کی شہادت کی مناسبت سے ایران کے شہر شیراز میں مجلس کا انعقاد کیا گیا جس میں آیت اللہ احمد مروی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے کہا تھا کہ غزہ پر حملے کے تین مقاصد ہیں ؛پہلا مقصد قیدیوں کی رہائی،دوسرا مقصد حماس کی تباہی اور تیسرا مقصد غزہ پر قبضہ تھا ،لیکن وہ تینوں میں سے کسی ایک مقصد میں بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔
انہوں نے غزہ میں قیدیوں کی رہائی اور حماس کی تباہی کوصیہونیوں کا ناکام خواب قرار دیتے ہوئے کہا کہ صیہونی حکومت ایک قیدی کو بھی آزاد نہیں کرا سکی۔ کیا حماس ختم ہوگئی؟اگر حماس ختم ہو جاتی تو جنگ بندی کی ضرورت ہی پیش نہ آتی،ہاں انہوں نے غزہ کو نقصان پہنچایا؛ہسپتالوں اور عمارتوں کو تباہ کردیا،وحشی گری اور ظلم و بربریت کوعروج پر پہنچایا اور پچاس ہزار سے زائد بے گناہوں کو شہید کیا۔لیکن آخر کار اپنے کسی بھی مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے اور مجبور ہو کر جنگ بندی کی۔
آستان قدس رضوی کے متولی نے مزید یہ کہا کہ مغربی ممالک جو صدیوں سے انسانی حقوق کے دعویدار ہیں غزہ میں ہونے والے ان تمام جرائم پر خاموش رہے اور نہ صرف رد عمل ظاہر نہ کیا بلکہ دفاع بھی کیا اور اپنا حقیقی چہرہ سب پر واضح کر دیا۔
انہوں نے شہید سید حسن نصر اللہ اورمزاحمتی محاذ کے چند اہم کمانڈروں کی شہادت کے باوجود حزب اللہ کی استقامت اور مزاحمت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمت افراد پر منحصر نہیں ہے بلکہ ایک نظریہ اور راستہ ہے جسے مسلمانوں نے صیہونیوں اور استکباری  طاقتوں کے خلاف چنا، افراد کی شہادت سے مزاحمت ختم نہیں ہوتی۔
اگر بزرگانِ حق کی شہادت سے مزاحمت ختم ہوتی توعاشور کے حضرت امام حسین(ع) کی شہادت سے اسلام ہمشہ کے لئے ختم ہو جاتا،لیکن حققیت میں بنی امیہ کو شکست ہوئی عباسیوں کو شکست اورظالموں کو شکست کا سامنا ہوااور عاشورا کا نور روز بروز پھیلتا جارہا ہے ۔
 دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے قومی اتحاد کو برقرار رکھنا ضروری ہے
آیت اللہ مروی نے خطے اور ملک کے حساس حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ دشمن نے تین سازشوں کو ایجنڈے میں رکھا ہوا ہے ؛ ’’اختلاف پھیلانا‘‘،’’مایوسی پیدا کرنا‘‘ اور’’خوف و ہراس پھیلانا‘‘،ہمیں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے انتباہات پر غور کرنا چاہئے ،ان تینوں سازشوں سے دشمن ملک کے اندرونی اتحاد کو براہ راست نشانہ بنا رہا ہے ،اس لئے ہمیں آگاہی اور بیداری کے ساتھ قومی اتحاد کو برقرار رکھنا ہوگا۔
گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمیں دشمن کو نہیں بھولنا چاہئے اور بنیادی مسائل اور ثانوی مسائل میں فرق کرنے میں غلطی نہیں کرنی چاہئے ،کہیں بنیادی مسائل پر ثانوی مسائل کو ترجیح دے کر دشمن سے غافل نہ ہوجائیں ، ایک وقت جب معاشرہ اندرونی مسائل میں گھرا ہوا تھا تو حضرت امام خمینی(رہ) نے فرمایا جتنا ہو سکے امریکہ کے خلاف آواز بلند کرو۔
آستان قدس رضوی کے متولی نےکہا کہ معاشرے میں تفرقہ اوراختلاف پھیلانے اور لوگوں کو مایوس کرنے سے پرہیز کیا جائے ، ہمارے دشمن بے رحم ہیں جو ہمارے نظام، ہماری قوم اورملک و ثقافت سے شدید نفرت کرتے ہیں۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اختلاف کو ہوا دے کر انقلاب کی خدمت کر رہا ہے تو وہ غلط راستے پر ہے ، رہبر معظم انقلاب اسلامی نے واضح طور پر کہا ہے کہ دشمن کی اہم سازشوں میں سے ایک ’’اختلاف پیدا کرنا ‘‘ ہے ۔
انہوں نے مزید یہ کہا کہ یقیناً ملک میں مسائل اور خامیاں موجود ہیں لیکن مسائل کو اس طرح نہیں بڑھانا چاہئے جس سے معاشرے میں تفرقہ پیدا ہو اور قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچے۔
لوگوں کے حوصلے پست کرنے کے لئے خوف و ہراس پھیلانا دشمن کی سازش ہے
آیت اللہ مروی نے خوف و ہراس کو دشمن کی جانب سے عوام کے حوصلے پست کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ دشمن کو لوگوں کے ذہنوں میں حد سے زیادہ بڑا نہیں کرنا چاہئے ، دشمن بے رحم اور بزدل ہے اور کسی بھی جرم کے ارتکاب سے گریز نہیں کرتا جیسا کہ ہم نے غزہ اور لبنان میں بھی دیکھا ،تاہم اگر ایک قوم،معاشرہ اور ملت اتحاد و یکجہتی کے ساتھ دشمن کے مقابلے میں کھڑی ہو جائے تو دشمن کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
ہمیں معاشرے میں خوف و ہراس پھیلانے سے گریز کرنا چاہئے اور دشمن کو بڑا ظاہر نہیں کرنا چاہئے،اہل قلم، زبان اور دیگر مختلف پلیٹ فارمز کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ وہ اپنی باتوں اور تحریریوں سے لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا نہ کریں۔
انہوں نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے جنگ احد کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ جنگ احد تاریخ اسلام کے اہم ترین معرکوں میں سے ایک ہے جس میں مسلمانوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا حتی پیغمبر خدا(ص) کی شہادت کی افواہیں پھیلیں،اس جنگ کے بعد منافقوں نے کوشش کی کہ افواہیں پھیلا کر اور خوف و ہراس کے ذریعہ مسلمانوں کے حوصلوں کو پست کیا جائے تاہم مسلمانوں کا ایمان روز بروز مستحکم تر ہوتا گیا اور انہوں نے خداوند متعال پر بھروسہ کرتے ہوئے مشکلات کا سامنا کیا اورمنافقوں کی دھمکیوں کے مقابلے میں اطمینان قلب اور مستحکم ایمان کے ساتھ کہتے تھے : «حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ؛خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین پشت پناہ ہے ۔»
گمراہی اور ضلالت سے نجات کی کلید دینی بصیریت اور ولایت کی اطاعت ہے
آستان قدس رضوی کے متولی نے خوارج کے چند ایک واقعات بیان کئےاور دینی بصیرت کو مضبوط بنانے کی اہمیت اور ولایت کی اطاعت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ خوارج درحقیقت کوفہ کے شیعوں کا ایک گروپ تھا جو ابتدا میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ تھے اور آٹھارہ مہینوں تک محکم عقیدے کے ساتھ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ مل کر جنگ کرتے رہے خوارج اگرچہ ابتدا میں نیک نیتی کے ساتھ میدان میں اترے تھے لیکن عدم بصیرت اور مسائل کو سمجھنے میں شعور کی کمی کے باعث اپنے محدود اور سطحی علم پر مغرورہوئےاور امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی پیروی نہ کرنے کی وجہ سے گمراہی ، فساد اور تباہی سے دوچار ہوئے۔یہ واقعات فقط امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے زمانے تک محدود نہیں ہیں تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے اس لئے ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے مزید یہ کہا کہ ہم خدائی مدد پر یقین رکھتے ہیں اور یقیناً خدا ہماری مدد کرے گا بشرطیکہ ہم اسلام، اہلبیت(ع) اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کی راہنمائی کے ساتھ صراط مستقیم پر چلتے رہیں، رہبر معظم انقلاب اسلامی کے حکم کے خلاف اجتہاد انحراف ہے ، ہمارا یہ یقین ہے کہ خدا کا وعدہ ضرور پورا ہوگا،جیسا کہ ہم نے بارہا انقلاب اسلامی کے بعد کے چند سالوں میں خدا کی مدد اور فضل کا مشاہدہ کیا۔
شاہ چراغ(ع) ولایت کے دفاع کی راہ میں شہادت کی علامت ہیں
 آیت اللہ احمد مروی نے حضرت احمد بن موسیٰ شاہ چراغ(ع) کی شہادت کی برسی کے موقع پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ حضرت احمد بن موسیٰ(ع) نے اپنی پوری ہستی  امامت و لایت کی راہ پر قربان کردی،حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی شہادت کے ابتدائی ایّام میں بہت سارے شیعہ حیرت و سرگردانی میں تھے ،ان حساس حالات میں جنہوں نے آٹھویں امام  کی امامت پر تاکید کی انہوں نے بہت سی مشکلات سہنے کے باوجود شیعوں کو امام رضا(ع) کے گرد جمع کرنے کی کوشش کی ان میں سے ایک احمد بن موسیٰ(ع) تھے۔
آستان قدس رضوی کے متولی نے اس بیان کے ساتھ کہ حضرت شاہ چراغ نے آٹھویں امام کے گرد شیعوں کو اکھٹا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اپنی جان کو اس راہ میں قربان کر دیا، کہا کہ مامون کی سازشوں کا مقابلہ کرنے اور اسے ناکام بنانے کے ساتھ حضرت امام علی رضا(ع) کے مقدس اہداف کی حمایت میں حضرت احمد بن موسیٰ(ع) اور حضرت فاطمہ معصومہ(س) کا کردار بے مثال تھا، ان دو عظیم ہستیوں نے امام رضا(ع) کے اہداف کے حصول اور مامون کی سازشوں کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

News Code 5614

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha