روضہ منورہ امام رضا(ع) اور متبرک مقامات پر۱۲۰۰ سالہ تدریس کی تاریخ پر تفصیلی رپورٹ

حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت کے ابتدائی دور سے ہی حرم امام رضا(ع) عبادت کرنے کی جگہ ہونے کے ساتھ تعلیم و تعلیم کے حصول اور علم حاصل کرنے کا اہم مرکز بھی تھا ،تاریخی دستاویزات کے مطابق ؛ تیسری صدی ہجری میں مختلف اسلامی فرقوں کے علماء اور فقہا حرم امام رضا علیہ السلام میں درس و تدریس کے لئے تشریف لاتے تھے۔

مرحوم استاد عزیز ا۔۔۔ عطاردی کی کتاب’’تاریخ آستان قدس رضوی‘‘ کی رپورٹ کے مطابق؛اس دور میں ایک اہلسنت فقیہ ابوبکر خزیمہ اپنے شاگردوں کے ہمراہ روضہ منورہ امام علی رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے تشریف لاتا اور زیارت کے ساتھ روضہ منورہ میں بحث و تدریس بھی انجام دیتا تھا۔شیعہ علمائے کرام میں سے شیخ صدوق(رہ) جیسے بزرگ علماء کو روضہ منورہ امام رضا(ع) میں درس و تدریس کا شرف حاصل ہے ،خوش قسمتی سے شیخ صدوق(رہ) کی تدریس پر مشتمل مباحث’’امالی‘‘ کتاب کی صورت میں اب تک باقی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ روضہ منورہ امام رضا(ع) تعلیمی میدان میں چوتھی صدی ہجری کے وسط سے ایک اہم اور معروف مرکز جانا جاتا تھا،ہمارے اس دعوے  کا ثبوت اس مقدس مقام پر نمایاں طلباء جیسے شیخ الطائفہ شیخ طوسی کی تربیت ہے ،خدا کی رحمت ہو اس  بزرگ عالم دین پر۔

ہم یہ جانتے ہیں کہ شیخ طوسی(رہ) جب تعلیم کے سلسلے میں بغداد تشریف لے گئے تو آپ کی عمر صرف۲۳  سال تھی اور پانچ سال تک شیخ مفید(رہ) کے درس سے مستفید ہوتے رہے  تاہم شیخ طوسی(رہ) نے اپنے استاد شیخ مفید کی کتب پر شروحات لکھنے کا سلسلہ شیخ مفید(رہ) کی زندگی میں ہی کیا، اس سےیہ واضح ہوتا ہے کہ بغداد جانے سے پہلے ہی شیخ طوسی(رہ) ایک اعلیٰ علمی مقام پر فائزتھے، اور پھر اس زمانے میں مشہد مقدس کے علاوہ طوس کے باقی علاقوں میں جن میں تبران اور نوغان بھی شامل ہیں اہلسنت کی علمی سرگرمیوں کے مراکز تھے اور شیعوں کے علمی مراکز زیادہ تر مشہد مقدس میں ہی مرکوز تھے؛اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شیخ طوسی(رہ) نے حرم امام رضا علیہ السلام میں منعقد ہونے والے دروس سے استفادہ کیا۔

حرم امام رضا(ع) میں روایات بیان کرنے کی کلاسزز
تعلیم و تعلم اور تدریس کا دائرہ کار بعد والے ادوار میں وسیع پیمانے پر پھیل گیا،روضہ منورہ امام رضا(ع) کے اطراف میں آبادی کے اضافہ اور اس نورانی بارگاہ کے جوار میں کچھ مدارس کی تعمیر کے ساتھ اساتذہ اور طلباءکی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا،حتّی چھٹی صدی ہجری کے شروع میں احادیث و روایات بیان کرنے کی محفلیں اور کلاسزز منعقد ہونا شروع ہوگئیں اور بہت سے جیّد اور معروف شیعہ علمائے کرام جیسے تفسیر ’’مجمع البیان‘‘ کے مفسر فضل بن حسن طبرسی، اس نورانی بارگاہ میں روایات سنتے اور بیان کرتے تھے۔

’’صحیفۃ الرضا(ع)‘‘ کی ایک دستاویز میں طبرسی سے منقول ہے کہ انہوں نے یہ روایت ۵۰۱ ہجری قمری میں اُس گنبد کےنیچے جہاں پر امام رضا علیہ السلام کی مرقد مطہر ہے عبد المنعم قشیری سے سنی اور اسے بیان اور نقل کرنے کی اجازت بھی لی۔بعد میں آستان قدس رضوی کی تشکیل کے ساتھ ہی روضہ منورہ امام رضا علیہ السلام میں درس و تدریس کا سلسلہ اس ادارے کے انتظامی اور بنیادی ڈھانچے کا حصہ بن گیا،تاریخی دستاویزات میں روضہ منورہ امام علی رضا(ع) میں ’’مدرّس‘‘ کے عہدے کا ذکر ملتا ہے  ، غالباً  مدرس کا یہ عہدہ اور منصب تیموری دور سے شروع ہوا۔

سلطان حسین بایقرا (تیموری سلسلہ کا آخری بادشاہ ،تاریخ وفات:۹۱۱ق) کی سلطنت کے زمانے میں مشہد مقدس کے موسوی سادات میں سے سید غیاث الدین افضل محمد بن حسن کو حرم امام رضا علیہ السلام میں مدرّس کے عہدے پر فائز کیا گیا،آستان قدس رضوی کی دستاویزات کے مطابق یہ سلسلہ بعد کے ادوار حکومت میں بھی جاری رہا۔صفویوں کے دورحکومت میں ان مدرّسین(اساتذہ) کی تعداد میں اضافہ ہوا اور ہر دورے میں پندرہ سے بیس مدرس تعلیمی فرائض انجام دیتے تھے۔اس دور میں مدرّسین کو شاہ صفوی کے براہ راست حکم سے تعینات کیا جاتا تھا مثال کے طورپر شہا طہماسب اوّل نے مولانا آقاجان تبریزی کو روضہ منورہ میں مدرّس کے عنوان سے مقرر کیا،وہ حرم امام رضا علیہ السلام میں فقہ،اصول،کلام،تفسیر اور احادیث کی تعلیم دیتے تھے ۔

صفوی دور حکومت میں اساتذہ کی سرگرمیوں کے بارے میں  زیادہ تر دستاویزات ان کی تنخواہوں کی ادائیگی سے متعلق ہیں، سب سے پرانی دستاویزات ۲۷۴۹۳ اور۲۷۴۹۴ نمبرزکے ساتھ آستان قدس رضوی کے دستاویزی مرکز میں موجود ہیں یہ دستاویزات شاہ عباس اوّل کے دور حکومت ۱۰۰۳ق کے ذیقعدہ مہینے کی ہیں  جن میں مدرّس مولانا عبد الکاظم کی تنخواہ اور ادائیگی وغیرہ بیان کی گئی ہیں۔

آستان قدس رضوی کے معروف و مشہور مدرّسین جو روضہ منورہ امام رضا علیہ السلام میں تدریس کیا کرتے تھے ان میں مولانا عبد اللہ شوشتری اور مولانا محمد رستمداری قابل ذکر ہیں ان میں مولانا محمد رستمداری کو مشہد مقدس پر ازبکوں کے حملے کے دوران  سال۹۹۷ ق  میں ان کے خلاف کھڑے رہنے کی وجہ سے شہید کر دیا گیا ۔

افشاریوں کے دور حکومت میں اساتذہ اور مدرّسین کو باقاعدہ طور پر حرم امام رضا علیہ السلام کے خادموں کی شفٹوں میں درج کیا جا چکا تھا اور وہ حرم امام رضا علیہ السلام میں باقاعدہ تعلیم و تعلم کی ذمہ داری کے علاوہ خادموں کو شریعت اور دین کی تعلیم دینے پر بھی مامور تھے۔

علیشاہیوں کے دور حکومت سے متعلق آستان قدس رضوی میں موجود دستاویزات میں چند ایک افشاری دور حکومت کے اساتذہ کے نام بھی موجود ہیں جیسے ’’میرزا مقیم‘‘ جو کہ حرم امام رضا علیہ السلام میں درس پڑھایا کرتے تھے،یہ سلسلہ قاجاریوں کے دور حکومت میں بھی جاری رہا ۔آستان قدس رضوی کا آخری سرکاری مدرّس مرحوم محمد تقی ادیب نیشابوری تھے جو کہ ادیب دوّم کے نام سے بھی معروف ہیں جن کی وفات۱۳۵۵ ہجری شمسی میں ہوئی،یہ استاد حوزہ علمیہ مشہد کے ممتاز ترین اساتذہ میں سے تھے۔

روضہ منورہ کے فن تعمیر پر تدریس کا اثر

جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ ابتدائی صدیوں میں حرم امام رضا علیہ السلام اور اس کے اطراف میں درس و تدریس کی کلاسز اور محافل منعقد کی جاتی تھیں ،لیکن بعد کے ادوار میں روضہ منورہ اور متبرک مقامات میں توسیع کی وجہ سے اس کام کے لئے ایک خاص جگہ کا انتخاب کیا گیا جن میں  مدرسہ بالا سر،مدرسہ پایین پا،توحید خانہ،دارالسیادہ اور کبھی کبھار مسجد گوہر شاد اور اس کے شبستان وغیرہ شامل تھے۔

تاہم روضہ منورہ امام رضا(ع) کے فن تعمیر کے چند ماہرین  اور انجینئرز کا یہ خیال ہے کہ روضہ منورہ میں ایوان اور برآمدے بنانے کا مقصد تعلیمی کلاسز کا انعقادتھا ،ان کے نقطہ نظر کے مطابق روضہ منورہ امام رضا علیہ السلام میں دیگر عمارتوں کی طرح برآمدے اور ایوان کی تعمیر؛اسلامی جمہوریہ ایران کی تاریخ میں دینی تعلیم کے استعمال کے مقصد سے کی گئی تھی ، در حقیقت ایوان کو ایک مدرسہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا جہاں اساتذہ اور مدرّسین تعلیم دیا کرتے تھے۔

اس طرح کی تعمیر کا فائدہ یہ تھا کہ مقدس مقامات کی جگہ کے مؤثر استعمال کے علاوہ ،عام افراد بھی بہت ساری درسی نشستوں اور کلاسزز سے مستفید ہو سکتے تھے جیسے بہت سارے افراد درس تفسیر سننے کا شوق رکھتے تھے ،البتہ اس نقطہ نظر کو عام نہیں سمجھا جا سکتا اور تمام متبرک مقامات پر بنائے گئے ایوانوں اور برآمدوں کا مقصد یہ قرار نہیں دے سکتے ،لیکن یہ بات یقینی ہے کہ تاریخ دستاویزات کی بنیاد پر روضہ منورہ امام رضا علیہ السلام میں بنائے گئے ایوان اور برآمدے کے استعمال کا ایک حصہ درس و تدریس کے لئے وقف تھا،در حقیقت اسے روضہ منورہ میں درس و تدریس کی طویل تاریخ کے ثبوت اور گواہ کے طور پر تسلیم کیا جا سکتا ہے ۔

News Code 3037

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha