تاریخی دستاویزات کی روشنی میں  حرم مطہر کےنادری سقاخانہ(پانی کی سبیل) کی تعمیر کی تفصیلات

نیا سلطانی سقانہ خانہ(پانی کی سبیل) جو کہ سقا خانہ نادری اور سقاخانہ اسماعیل طلا(سونے والے اسماعیل کی پانی کی سبیل) کے نام سے مشہور ہے ایران کے تاریخی اور مشہور و معروف سقا خانوں میں سے ایک ہے یہ سقاخانہ اس وقت حرم امام رضا(ع) کے صحن انقلاب میں موجود ہے اس سقاخانہ کو افشاری بادشاہ نادر شاہ کے حکم پر تعمیر کیا گیا اور اسی نام سے مشہور بھی ہوا۔

اس سبیل کے گہرے ظرف یا برتن کو ایک ہی پتھر سے بنا  یا گیا  جسے نادر بادشاہ کے حکم پر ہرات سے مشہد مقدس لایا گیا،اور اس سبیل کے پتھر کے ٹینک یا گہرے ظرف کو حرم امام رضا(ع) کے صحن انقلاب میں نصب کیا گیا اور حرم کے خدام پتھر کی بنی ہوئي اس سبیل سے زائرین کو پانی پیش کرتے ہیں   ۔

’’عالم آرا نادری ‘‘کتاب میں موجود ایک دستاویز کے مطابق اس جگہ پر پہلے سے پانی کا ایک حوض تھاجسے نادر شاہ کے حکم پر چار حصوں میں تقسیم کیا گیا اور پانی کے حوض کے بیچ میں  اس پتھر کے برتن کو رکھا گیااور اس کے اوپر ایک گنبد نما سائبان بھی بنایا گیا ۔کہا جاتا ہے کہ قاجاریوں کے دورحکومت میں اسماعیل نامی شخص نے اس پرسوناچڑھایااور یہی وجہ ہے کہ اسے ’’سقا خانہ اسماعیل طلا  کہا جاتا ہے ۔

آرگنائزیشن آف لائبریریز، میوزیمز اور آستان قدس رضوی  کے دستاویزی مرکز کی سربراہ محترمہ الھہ محبوب  نے بتایا کہ وقف ناموں کے مطابق پانی کی اس سبیل کے کئي سقا تھے اوراس طرح چند دیگر افراد بھی تھے جن کی ذمہ داری گرمیوں میں برف خرید کر پانی کی سبیل میں استعمال کرنا اور راتوں میں وہاں پر چراغوں  کا انتظام کرنا شامل تھا۔

ان وقف ناموں میں باقاعدہ طور پر ان چار افراد کے لئے جو اس پانی کی سبیل کے لئے روزانہ حوض سے پانی، اس  سبیل تک لاتے تھے  ان کے اخراجات اور تنخواہوں کا تعین کیا گیا ہے ۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ چار افراد ؛چمڑے سے بنے نیلے رنگ کے ظرف میں جسے راویہ کہا جاتا تھا حوض سے پانی لاتے تھے اور ان افراد کو راوی کش کے نام سے پکارا جاتا تھا البتہ کبھی کبھی پانی لانے کا  کام خچروں کے ذریعہ بھی انجام پاتا تھا ،یہ تمام کام ’’سقا باشی‘‘ کی نگرانی میں انجام پاتے تھے۔

محترمہ الھہ محبوب نے افشاری دورحکومت کی دستاویزات کے مطابق دو سقاخانوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پرانا سقاخانہ(پانی کی سبیل) جسے شاہ سلیمان اور شاہ سلطان حسین صفوی کا سقا خانہ کہا جاتا تھا وہ بھی اس دور میں باقاعدہ فعال تھا اور اس کے ’’ سقاباشی‘‘ کو بھی باقاعدہ طور پر تنخواہ دی جاتی تھی۔

سقاخانه اسماعیل طلا؛ موقوفه ای همیشه جاری

قاجاریوں کے دورحکومت کے سقا خانے

قاجاریوں کے دورحکومت میں گذشتہ ادوار کی نسبت سقاخانوں میں اضافہ کے ساتھ بہت ساری تبدیلیاں بھی کی گئیں، جن میں سقاخانہ طلا(نادری)،سقاخانہ ایوان طلا، سقاخانہ موتمن السلطنہ اور سقاخانہ میان عمارت   شامل ہیں

محترمہ الھہ محبوب کا کہنا تھا کہ اس دور میں سقاخانوں کے لئے لائیٹنگ یا چراغوں  کا انتظام کیا گیا اورسقاخانوں کے مختلف حصہ میں چراغ رکھے گئے،اس کے علاوہ پانی پلانے والے خادموں کو بھی باقاعدہ منظم کیا گیا اور سقا خانہ کی تعمیر وغیرہ کے لئے بجٹ مختص کیا گیا۔

سقاخانہ طلا(سونے والی پانی کی سبیل) دارالسیادہ اور ایوان طلا کے درمیان میں واقع تھا  جہاں پر خوارزمشاہی پتھر سے بنا پانی کا بڑا ظرف  نصب تھا اس لئے اسے حرم امام رضا علیہ السلام کا سب سے پرانا سقاخانہ کہا جا سکتا ہے ۔وہ سقاخانہ جو عمارت کے اندر تھا تاریخی ماخذ اور دستاویزات میں اس کا کوئی نام ذکر نہیں کیا گیا فقط  سقاخانہ میان عمارت کے عنوان سے ذکر ہوا ہے وہ بھی جب گنبد مطہر کی تعمیرات اور آستان قدس رضوی کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کی بات ہوتی ہے تو  وہاں پر اس کا بھی ذکر ملتا ہے ۔

بہرحال یہ معلوم نہیں ہے کہ حرم امام رضا(ع) کے کس حصے میں اور کب تک یہ سقاخانہ رہا فقط ۱۳۳۱ شمسی تک کی دستاویزات میں سقاخانہ میان عمارتی کا ذکر پایا جاتا ہے ۔

سقاخانہ صحن نو بھی  حرم میں تعمیر کیا گيا تھا جس کے بانی کے طور پر موتمن السلطنہ یا مستشارالملک کا نام لیا جاتا ہے  یہ سقاخانہ موجودہ صحن آزادی کے وسط میں تھا اور اس کاحجم   اور طرز ساخت؛ سقاخانہ نادری کی طرز پر تھا۔

بظاہر پہلوی دورحکومت میں یعنی ۱۳۰۷ شمسی میں  جب محمد ولی اسدی متولی تھے اس سقاخانہ کو خراب کر دیا گیا اور اس جگہ پر صحن کے وسط میں ایک حوض تعمیر کیا گیا اور اس وقت بھی سقاخانہ کا پتھر سے بنا ظرف اسی حوض کے وسط میں نصب ہے ۔

سقائي کا کام فقط سقاخانوں تک محدود نہیں تھا بلکہ پانی پلانے والے یا سقا  حرم کے دیگر حصوں میں بھی موجود رہتے تھے اور باقاعدہ اس کام کے لئے انہيں نخواہ دی جاتی تھی

دستاویزات کی بنیاد پر کارخانہ زواری، کشیک خانہ اور قہوہ خانوں میں بھی پانی پلانے والے افراد تھے جو پانی پلانے کے علاوہ صحن کی صفائی و ستھرائی کا کام بھی انجام دیتے تھے اور اس کے علاوہ تعزیہ خوانی کی رسومات بھی یہی افراد انجام دیتے تھے۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ سقاخانہ کی تاریخ اور پانی کے لئے پتھر سے بنے برتن یا ظرف  کا تاریخچہ صفوی دور سے بھی پہلے کا ہے ،حرم امام رضا علیہ السلام کے میوزیم میں اس وقت بھی پانی کے لئے پتھر سے بنا خوارزمشاہی برتن موجود ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ پہلے سقا خانہ کےراستہ میں نصب تھا اور اسی سے زائرین کو پانی پلایا جاتا تھا۔

News Code 790

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha