آستان قدس رضوی کی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے سوشل اسٹڈیز گروپ کے ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر مرتضیٰ انفرادی نے مؤرخہ 23اپریل2025 بروز بدھ کو شیخ بہائی(رہ) کی برسی کی مناسبت سے آستان نیوز کے نیوز رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان عظیم ہستیوں کی زندگیاں علم الہیٰ کی مظہر رہی ہیں اور انہوں نے ہمیشہ اہلبیت(ع) کی سیرت پر عمل پیراہ ہو کر علم و فکرکو بلندیوں تک پہنچایا ہے ۔
اس محقق نے امام رضا(ع) کی روایت ’’رحم اللہ عبد احیا امرنا۔۔۔‘‘ پرو روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا اس شخص پر رحمت فرمائے جو ہمارے امر کو زندہ کرے ، جب امام علیہ السلام سے سوال ہوا کہ کس طرح سے آپ کے امر کو زندہ کریں تو امام علیہ السلام نے جواب دیا:’’یتعلم علومنا ویعلمھا الناس‘‘ یعنی ہمارے علوم کو سیکھیں اور لوگوں کو سکھائیں ،اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ امام علیہ السلام کی نظر میں علم اور تحصیل علم کتنا اہم ہے ۔
انہوں نے مزید یہ بتایا کہ امام رضا(ع) کا ایک لقب عالم آل محمد(ص) ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ(ع) کی شہادت کے بعد آپ کی نورانی بارگاہ بہت سارے اسلامی دانشوروں اور علماء و مشایخ کے لئے پناہ گاہ رہی ہے اور اس جگہ پر دینی و علمی مدارس کا قیام اور توسیع ابتدا سے آج تک ممتاز علماء کی موجودگی اور توجہ کا مرکزرہا ہے ،جناب انفرادی نے بتایا کہ حرم امام رضا علیہ السلام کو مرکزی حیثیت حاصل ہونے کی وجہ سے بہت سارے علماءحرم میں دفن ہوئے ہیں جن میں سے ایک بہاء الدین محمد بن حسین عاملی المعروف شیخ بہائی(رہ) ہیں۔
انہوں نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ شیخ بہائی (رہ) علم فقہ، حدیث، ریاضی،طب، فن تعمیر،شعر و ادب،فلسفہ،منطق،فزکس،عرفان اور علم فلکیات میں مہارت رکھتے تھے ،انہوں نے مزید یہ بتایا کہ یہ شیعہ عالم دین 953 ہجری قمری میں پیدا ہوئے اورشہر اصفہان میں درس دیا کرتے تھے ان کے نامور شاگردوں میں سے ملاصدرا، محمد تقی مجلسی اور ملا محسن فیض کاشانی وغیرہ جیسے علماء شامل ہیں۔
شیخ بہائی (رہ) علم طب، فن تعمیر اور فلکیات وستارہ شناسی میں بھی ماہر تھے اور یہ پہلے دانشور تھے جنہوں نے زمین کی حرکت کی تجویز پیش کی، اس عظیم دانشور کی علمی و سائنسی خدمات اس قدر عظیم تھیں کہ یونیسکو نے 2009 کو سال فلکیات اور شیخ بہائی کےنام سے اس سال کو درج کیا۔
انہوں نے مختلف علوم میں 100 سے زائد کتب اورمقالے تحریر فرمائے ،یہ عظیم ہستی76 سال کی عمر میں اصفہان میں وفات پا گئی ،انہیں ان کی وصیت کے مطابق حرم امام رضا(ع) میں جس جگہ پر وہ درس پڑھایا کرتے تھے سپرد خاک کیا گیا، جسے اب رواق شیخ بہائی(رہ) کہا جاتا ہے ۔

آستان قدس رضوی کی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے سوشل اسٹڈیز گروپ کے ڈائریکٹرنے بتایا کہ شیخ بہائی(رہ) کا شمار اسلامی اور شیعہ دنیا کے سب سے قابل اور ممتاز علماء میں ہوتا ہے اور وہ عصر حاضر کے علماء و مشائخ کے لئے ایک بہترین نمونہ ہیں۔
News Code 6179
آپ کا تبصرہ