’’حوزہ علمیہ خراسان کے علمی ورثہ کا تحفظ‘‘نامی منصوبے سے نقاب کشائی کی تقریب

ہفتہ ریسرچ کی مناسبت سے آستان قدس رضوی کے ۱۹۲ ویں علمی و ثقافتی ہفتہ وارپروگرام کے دوران حوزہ علمیہ خراسان کی جانب سے علمی ورثے کو اکھٹا کرنے اور اس کی حفاظت کے منصوبہ کو متعارف کرانے کے ساتھ اس منصوبے سے نقاب کشائی کی گئی۔

عتبه نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ یہ پروگرام رضوی لائبریری میں واقع قدس ہال کے داخلی دروازے پر منعقد کیا گیا جس میں حوزہ علمیہ خراسان کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر علی خیا ط نے ہویت اور شناخت کے احساس کو اہم ترین مسائل سے جانتے ہوئے اسے ہر مجموعہ کی بقاء کے لئے ضروری قرار دیا۔

شناخت کا کھو دینا ؛قومی آزادی کھو دینے کی جانب ایک قدم ہے

انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جس دن کسی مجموعہ یا گروہ میں شناخت کا احساس ختم ہو جائے  وہ مجموعہ تباہ ہو جاتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ مختلف اقوام،ممالک اور ملتیں اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے شناخت کے مسئلے پر زور دیتے ہیں اورجو افراد انہیں ختم کرنا چاہتے ہیں وہ انہیں ان کی شناخت سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جناب خیاط نے ایران میں  برطانوی سامراج کی تاریخ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی سامراج نے اپنی طاقت و قدرت سے بھرپور کوشش کی کہ ایرانی عوام سے ان کی شناخت کو ختم کر دیا جائے۔

انہوں نے مزید یہ کہا کہ مغربی طاقتیں ہمیشہ مسلمانوں سے ان کی اسلامی شناخت چھیننے کی کوشش کرتی ہیں اور جس وقت مسلمان اپنی اسلامی شناخت کھو دیتے ہیں ،مغربی طاقتیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔

حوزہ علمیہ خراسان کے سربراہ نے کہا کہ بعض افراد میں  اپنے آپ کو حقیر سمجھنے کا جو ایک سلسلہ شروع ہوا یہ خود شناخت کھو دینے کی واضح مثال ہے ۔

جناب علی خیاط نے گذشتہ صدیوں سے بچ جانے والے خطی اور قلمی نسخوں کو قومی اور دینی شناخت کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ  کئی سالوں سے قرآن کو غیر مستند اور غیر معتبر قرار دینے کی کوششیں کی گئیں، لیکن پہلی صدی ہجری سے متعلق قرآن کریم  کے وجود نے اسے اعتبار بخشا،اوریہ تحریری ورثہ شناخت کا باعث بنا۔

انہوں نے اس ورثے کو مختلف شکلوں میں متعارف کروانے کو معاشرے کو اس کی شناخت سے آگاہی کی ایک قسم قرار دیا اور اس ورثے کے تحفظ اور اس سے متعلق آثار اور فن پاروں کو قدیمی مدارس سے جمع کرنے کے لئے آمادگی کا اظہار کیا۔

قیمتی ورثے کواکھٹا کرنے سے لے کر تحقیقات تک

آرگنائزیشن آف لائبریریز،میوزیمز اور آستان قدس رضوی کے دستاویزاتی مرکز کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین سید جلال حسینی نے قیمتی ورثے کے ماخذکو اکھٹا کرنے،ان کے تحفظ اور دیکھ بھال کو اس آرگنائزیشن کے اہم ذمہ داری قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قیمتی ورثے کے تحفظ کے لئے ۹ ہزار مربع میٹر رقبے پر مخاذن(ذخیرہ کرنے کی جگہیں) تعمیر کئے گئے ہیں۔

انہوں نے اس تحریری ورثے کی بحالی و مرمت ،محققین کی رسائی اور ریسرچ و تحقیق کے ذریعہ ان قیمتی آثارکے احیاء کو اس آرگنائزیشن کے جملہ چند دیگر اقدامات جانتے ہوئے کہا کہ محققین کی اس ورثے تک رسائی کے لئے اب تک ۲۰ ہزار سے زیادہ خطی اور قلمی نسخوں کو رضوی ڈیجیٹل لائبریری کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا گیا ہے اور مستقبل قریب میں ان مخطوطات کی تعداد ۵۰  ہزار تک پہنچ جائے گی۔

تحریری ورثے کے تحفظ سے متعلق تشویش

آستان قدس رضوی کی لائبریری کے مخطوطہ مرکز کے سربراہ جناب ابوالفضل حسن آبادی نے عالم اسلام اور شیعوں کے قیمتی ورثہ کے تحفظ سے متعلق تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اسی وجہ سے اسلام کی ابتدائی صدیوں سے اب تک کے قیمتی مخطوطات کو آستان قدس رضوی کی لائبریری سے اٹھا لیا گیا ہے ۔

انہوں نے مخطوطات کے قیمتی ورثے کے تحفظ کے حوالے سےحوزہ علمیہ خراسان  کے اقدامات کو سراہا۔

انہوں نے بتایا کہ طبس میں واقع مدرسہ علمیہ امام صادق(ع)،نیشاپور میں واقع مدرسہ علمیہ گلشن اور چالوس میں واقع مدرسہ امام صادق جملہ ایسے مدارس ہیں جہاں سے امانت کے طور پروصول کی گئی کتابوں کے تحفظ کے لئے اقدامات انجام دیئے گئے ہیں،۱۳۴۰ خطی نسخے،۱۴۳۷  لتھوگرافک نسخے مخطوطہ مرکز کے پاس ہیں جنہیں منظم کرنے کے ساتھ ان کی دیکھ  بھال اور نشر و اشاعت کے حوالے سے اہم اقدامات انجام دیئے گئے ہیں۔

جناب حسن آبادی نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال سے صوبہ خراسان کے مدارس سے قیمتی ورثے کو اکھٹا کرنے کے ساتھ مدارس کی لائبریریز کو فعال بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ،اس دوران ۲۸۲ سے زیادہ خطی نسخے اور ۱۴۰۰ لتھوگرافک نسخوں کو مدارس سے اکھٹا کیا گیا ہے ۔

انہوں نے تربت حیدریہ کے مدرسہ علمیہ ہراتی،سبزوار کے مدرسہ علمیہ اہل بیت(ع) اور فخریہ ،مشہد کے مدرسہ سلیمانیہ،مدرسہ نورالزہرا اور مدرسہ علمیہ جعفریہ کو جملہ ایسے مدارس قرار دیا جن سے امانت کے طور پر کتابیں وصول کی گئی ہیں ،ان تمام مخطوطات کو مخطوطہ مرکز میں منتقل کرنے کے بعد ان سے نئے تحقیقاتی موضوعات استخراج کئے جائیں گے۔
جس مخطوطات سے نقاب کشائی کی گئی

حوزہ علمیہ خراسان کے مختلف مدارس سے اکھٹے کئے گئے مخطوطات میں بعض بہت ہی قیمتی نسخے ہیں جن میں سے چند ایک مخطوطات کو ہفتہ وار ثقافتی پروگراموں میں نقاب کشائی کیا گیا ہے ۔
شہید اول کے نام سے مشہور جناب محمد بن مکی(۷۳۴- ۷۸۶ق) کی کتاب’’ذکری الشیعہ فی احکام الشریعہ‘‘ جس کی کتابت ۸۸۳ ہجری قمری میں احمد بن علی بن حیدر نے کی جملہ ان مخطوطات میں سے ہے جو  ۵۶۲سال پرانی ہونے کے ساتھ مدرسہ علمیہ سلیمانیہ سے مرکزی لائبریری کے مخطوطہ مرکز کو موصول ہوئی ہے ۔

علامہ حلی (۶۴۸- ۷۲۶ ق) کی عربی زبان میں لکھی گئی کتاب ’’ارشاد الاذہان الی حکام الایمان‘‘  کی کتابت۹۰۵ ہجری قمری میں رستم بن محمد مدرسہ نے کی اور ۴۴۰ سال پرانی ہے یہ کتاب سبزوار کے مدرسہ علمیہ فخریہ سے امام رضا(ع) کی مرکزی لائبریری کے مخطوطہ مرکز کو موصول ہوئی۔

اس کے علاوہ محمد بن حسن شیخ طوسی(۳۸۵-۴۶۰ق) کی کتاب’’ تہذیب الاحکام فی معرفۃ الحلال والحرام‘‘ جسے گیارہویں صدی ہجری میں کتابت کیا گیا جملہ ان مخطوطات میں سے ہے جو تربت حیدریہ کے مدرسہ علمیہ ہراتی سے مخطوطہ مرکز منتقل کی گئی۔
 

News Code 3008

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha