حرم امام رضا(ع) کی لائبریری کا تاریخی پس منظر

آستان قدس رضوی کا کتب خانہ ایران اور عالم اسلام کےسب سے بڑے کتب خانوں میں سے ایک ہے جس میں صفویوں،افشاریوں اور قاجاریوں کے دور حکومت سےبچ جانے والی اہم تحریری دستاویزات پائی جاتی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ یہ کتب خانہ بہت زیادہ تاریخی پس منظر کا حامل ہے ۔

عتبہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ آرگنائزیشن آف لائبریریز ، میوزیمز اور آستان قدس رضوی کے دستاویزاتی مرکز میں پائے جانے والی اہم دستاویزات اور مخطوطات سے اس نورانی بارگاہ کی لائبریری کی عمارت کے انتظامی امور کا پتہ چلتا ہے، ملازمتوں کی تعداداور ملازمت کی نوعیت،اخراجات اور مالیاتی امور،متعلقہ وقف نامے،ماخذاور منابع کو حاصل کرنے کا طریقہ کار اور فہرست بنانے اور فہرست نویسی کا طریقہ، معلومات کے حصول اور کتاب امانت دینے کا طریقہ کار اور مختلف ادوار میں لائبریری کی عمارت سے متعلق جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ان سب کو ان دستاویزات اور مخطوطات میں  بخوبی بیان کیا گیا ہے ۔

 یقیناً یہ  لائبریری حضرت امام علی رضا(ع) کی نورانی بارگاہ سے منسوب ہونے،اورحرم مطہر کے متولیوں اور معتمرین کی خاص توجہ،لائبریری کے موقوفہ ہونے،وقف شدہ کتب کی حفاظت کی اہمیت کے علاوہ مختلف ادوار اور حالات میں  انسانی ذرائع کے ہم آہنگ رہنے کی وجہ  سے   تاریخ میں ماندگار بن گئی۔
 

مختلف ادوار کے دوران  لائبریری میں رونما ہونے والی تبدیلیاں

تاریخی ذرائع کے مطابق، آستان قدس رضوی کی لائبریری کو صفوی دور میں تأسیس کیا گیااورافشاریوں کے دورحکومت میں اسے مزید مستحکم بنایا گیا جبکہ قاجاریوں کے دور حکومت میں اس لائبریری کی توسیع کی گئی،درحققیت بادشاہوں اور امراء طبقے کی جانب سے کتابیں وقف کرنا،لائبریری کے انتظامی امور کی تشکیل،کتابوں کی فہرست بندی اورکتابیں رکھنے کے لئے باقاعدہ عمارت کی تعمیر جیسے جملہ اقدامات صفویوں کے دورحکومت میں انجام دیئے گئے۔

افشاری دور حکومت میں اصفہان کے  حکومتی کتب خانہ کی کتابیں مشہد مقدس منتقل کی گئیں اور لائبریری کی از سر نو فہرست مرتب کی گئی  ،بعد ازاں قاجاریوں کے دور حکومت میں نئے شعبہ جات بنائے گئے  جن میں قرآن خانہ کو کتب خانہ سے الگ کردیاگیا،لائبریری کے لئے باقاعدہ قوائد و ضوابط مرتب کر کے  لائبریری کو نئے دور کے آغاز کے لئے  آمادہ کیا گیا ۔

 کتابخانه ای به قدمت تاریخ

لائبریری میں پہلی ملازمات لائبریرین کی تھی

حرم امام رضا علیہ السلام کی لائبریری میں پہلی ملازمات لائبریرین کی تھی اگرچہ ان لائبریرین کی تعداد قاجاریوں کے دورحکومت میں صفویوں کے دور حکومت کی نسبت آدھی رہے گی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ لائبریری میں دیگر شعبہ جات کے اضافہ ہونے کی وجہ نئی ملازمتوں کا سلسلہ شروع ہوا ، اسی لئے لائبریری کے انتظامی امور میں توسیع اور فرائض کی تقسیم بندی کا سلسلہ  بھی قاجاریوں کے دور حکومت میں ہوامثال کے طور پر مختلف ملازمتیں جیسے ’’کاتب(منشی)‘‘،’’چابی بردار‘‘،’’انتظامی امور کا سربراہ‘‘ اور’’ہیڈ کلرک/خزانچی‘‘ وغیرہ کی ملازمتیں   شامل تھیں،یہ بھی قابل توجہ ہے کہ قاجاریوں کے دور حکومت میں مختلف ملازمتوں اور عناوین میں اضافہ سے لائبریرین کے اختیارات بھی محدود ہو گئے اس کے علاوہ لائبریری ہیڈ یا سربراہ کا عنوان بھی تشکیل پایا،اس کے علاوہ اس نورانی بارگاہ کی لائبریری میں صحافی یعنی کتابوں کو جلد کرنے والی ملازمت بھی شامل تھی ،اس لائبریری میں پانچ سو سال سے صحافی کی ملازمت پر بزرگ اساتذہ اور آرٹسٹ’’صحافان‘‘ کے عنوان سے کتب جلدیں کرتے آرہے ہیں۔

مختلف طریقوں سے ملازمین کا انتخاب

لائبریری کا کچھ عملہ جن میں لائبریرینز،صحافان(صحافی)یا لائبریری کے سربراہ وغیرہ شامل ہیں علماء،دانشوروں اور شاہزادوں پر مشتمل تھے جن میں سے بعض فقط سادات کرام ہوا کرتے تھے اور کچھ افراد حرم امام رضا علیہ السلا میں  خدمت کرنے والے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے  یعنی انہیں یہ ملازمت وراثت میں ملتی تھی  مثال کے طور پر لائبریرین کا انتخاب یا حرم امام رضا(ع) کے متولی، درباریوں یا پھر بادشاہِ وقت کے ذریعہ کیا جاتا تھا جس سے اس لائبریری کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے ،انہی افراد میں سے ایک ’’ ابوالحسن میرزا شیخ الرئیس‘‘ تھے جو لائبریری کے پہلے سربراہ اور فتح علی شاہ قاجار کے پوتوں میں سے تھے ،ان کے دور صدارت میں گمشدہ کتب کی تلاش اور لائبریری کی جامع فہرست بندی کےلئے بہترین اقدامات انجام دیئے گئے ۔

حرم امام رضا(ع) کی لائبریری میں  کتاب امانت دینے کی مختلف شرائط تھیں مثال کے طور پر ناصر الدین شاہ کے دورحکومت میں مخطوطات کی حفاظت کےلئے انہیں امانت کے طور پر دینا ممنوع تھا ،مراجعہ کرنے والے افراد میں طلباء،علمائے کرام،زائرین و مجاورین شامل تھے اور مطالعہ کرنے کے لئے حرم امام رضا(ع) اورلائبریری کی جگہ شامل تھی۔

 کتابخانه ای به قدمت تاریخ


لائبریری کے لئے کتاب وقف کرنے کی اہمیت

اگرچہ حرم امام رضا(ع) کی لائبریری کے زیادہ تر ماخذ اور کتب وقف اور نذر و منت کے ذریعہ فراہم کئے گئے ہیں لیکن کتابوں کی خرید،گمشدہ کتب کی بازیافت وغیرہ کو خاص طور پر قاجاریوں کے دورحکومت میں  کتابوں کے حصول کے دیگر ذرائع کے طور پر ذکر کیا جا سکتا ہے لائبریری کے لئے بجٹ بھی عام اوقاف کی آمدنی سے ہی فراہم کیا جاتا تھا اور فقط قاجاریوں کے دور حکومت میں لائبریری کے لئے خصوصی  وقف نامہ تھے،اگرچہ لائبریری کا زیادہ تر بجٹ ملازمین کی تنخواہوں سے متعلق تھا ،صفوی اور اقشاری دور کے مقابلہ میں قاجاریوں کے دور حکومت میں مختلف تقاریب کے انعقاد کی وجہ سے لائبریری کے اخراجات اور بجٹ میں اضافہ ہوامثال کے طور پرہر جمعرات کے دن لائبریری میں ٹرسٹی میٹنگز منعقد ہوا کرتی تھیں،اس کے علاوہ مختلف ادوار میں  آستان قدس رضوی کے متولیوں کے فرائض کی لسٹ میں کتاب خانہ کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس سے اس پورے مجموعہ میں لائبریری کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آستان قدس رضوی کی لائبریری کے انتظامی امور اور تاریخی پس منظر کو جاننے میں دلچسپی رکھنے والے افراد؛آستان قدس رضوی کے دستاویزاتی ادارہ کی سربراہ  محترمہ الہہ محبوب فریمانی کی کتاب ’’ تاریخچہ کتاب خانہ آستان قدس رضوی بر پایہ اسناد از صفوی تا قاجار(۱۳۴۴ - ۹۰۷ ه. ق) کی طرف رجوع کر سکتے ہیں ، یہ کتاب ۷  ابواب اور۵۴۸ صفحات پر مشتمل ہے جس کی اشاعت  آرگنائزیشن آف لائبریریز،میوزیمز اور آستان قدس رضوی کے دستاویزی مرکز کی جانب سے ۲۰۱۳ عیسوی میں کی گئی۔

News Code 2686

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha