عتبہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ ایران میں شمسی مہینہ اردیبہشت کی دس تاریخ(۳۰اپریل) کا دن خلیج فارس کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس موقع پر ہم نے رضوی خزانہ میں پائے جانے والے فارس کے اس نیلے نایاب گوہر کے ریکارڈ اور ذرائع کی تاریخی حیثیت کے حوالے سے جائزہ لیا،جسے ذیل میں آپ قارئین کے لئے پیش کیا جارہا ہے :
چوتھی قمری صدی کا مخطوطہ ایڈیشن
ہزار سال قبل یعنی چوتھی صدی قمری سے متعلق ابو اسحاق ابراہیم بن محمد اصطخری کا مخطوطہ ایڈیشن’’المسالک والممالک‘‘کو آستان قدس رضوی کی آرگنائزیشن آف میوزیمز اورلائبریریز اور دستاویزاتی مرکز میں بحفاظت رکھا گیا ہے یہ ایڈیشن سب سے پرانا اور تاریخی ایڈیشن ہے جس میں درئے پارس(بحیرہ فارس) کا ذکر ملتا ہے ۔
جناب اصطخری نےاپنےاس مخطوطہ ایڈیشن میں پورے خلیج فارس،بحیرہ عمان،بحر ہند کے ایک بڑے حصے کو آفریقہ کے مشرقی ساحل،زنگبار سے لے کر تقریباً سراندیب(سیلان) تک کے حصہ کو بحیرہ فارس کہا ہے اور بعض اوقات مصنف نے اس سمندر کے آخری حصے کو چین کی سرزمین تک پہنچایا ہے ۔
خلیج فارس کانام لینے والے راوی کی تاریخی دستاویزات
قاجاریوں کے دورحکومت میں لکھے جانے والے سیاسی خطوط اور مکاتبات کی دستاویزات آستان قدس رضوی کے دستاویزاتی مرکز میں موجود ہیں جن میں واضح طور پر خلیج فارس کا نام درج ہے ۔
ان دستاویزات میں سب سے پرانی دستاویزات مظفر الدین شاہ قاجار یعنی ۱۲۳۸ ہجری قمری سے متعلق ہیں جن میں واضح طور پر خلیج فارس کا ذکر ملتا ہے اورخلیج فارس کو فارسی،جرمن اور انگریزی زبان میں درج کیا گیا ہے ۔
فارس کے سردار جناب محمد ذکی خان اور ہندوستان میں برطانوی راج کے سرحدی محافظ کے مابین خلیج فارس میں واقع جزیروں اور بندرگاہوں کی حفاظت اور باہمی تعاون کے لئے برطانوی افواج کی موجودگی کا معاہدہ ۱۲۳۸ہجری قمری میں منعقد ہوا، یہ معاہدہ انہی دستاویزات کا ایک صفحہ ہے ۔
اس کے علاوہ ہالینڈ کی شپنگ کمپنی کا ۱۳۳۷ ہجری شمسی میں سید جلال الدین تہرانی کو سامان وصول کرنے کے لئے رسید کے ہمراہ مراجعہ کرنے کا خط اورکویت میں مقیم ایرانی اکابرین کی جانب سے شیخ محمد خالصی کو نجد کے حاکم عبد العزیز بن مسعود کے ظلم و جارحیت کو روکوانے کی سے درخواست اور کویت میں مقیم ایرانیوں اور جنرل کمانڈر کے ساتھ مذاکرات کی درخواست تاکہ وطن سے دور ایرانیوں پر توجہ دی جائے اور ایرانی خلیج فارس کے جزیروں پر غیروں کے تسلط کا ذکر ہے یہ درخواست ۱۳۴۲ہجری قمری میں لکھی گئی اور ان دستاویزات میں بھی خلیج فارس کا ذکر ہوا ہے ۔
نظام السلطنہ حسین قلی خان کا شوکت الملک کو ٹیلی گرافک حکم جس میں خلیج فارس کے راستے افغانستان جانے والے ہتھیاروں سے لیس قافلہ کوگرفتار کرنا اور ۱۳۲۶ ہجری قمری میں اس کے نتیجہ کی خبر دینا،الوطن اخبارسے کٹنگ کی گئی تصویرجو کہ کویت کے امیر شیخ مبارک الصباح کے خط کی تاریخ دستاویزپر مشتمل ہے جس میں ’’خلیج فارس‘‘ کا لفظ واضح طور پر درج ہے ،کازرونی تاجر محمد شفیع کو ۱۳۱۷ہجری قمری میں خلیج فارس میں برطانوی حکومت کی طرف سے بوشہر کی بندرگاہ سے ایران کے اندرونی حصے تک تجارتی سامان کی حمل ونقل سے متعلق جاری کردہ لائسنس اور ۱۳۲۴ہجری قمری میں انگلستان کے بازاروں میں تجارتی سامان کی قیمت اور اجناس کے علاوہ ان کی ترسیل کے اخراجات کا خلیج فارس کی بندرگاہ پر وصول کرنا بھی چند ایسی دستاویزات ہیں جن میں خلیج فارس کے نام کو واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے ۔
خلیج فارس ؛ رضوی میوزیم میں
ایرانی تاریخ کے دائرہ کار میں خلیج فارس کے نام کے راویوں میں۱۹ویں صدی میں آسٹریا کے صدر تھوماس کلسٹل کی جانب سے رہبر انقلاب کو عطیہ کئے گئے نقشہ کو بھی ذکر کیا جا سکتا ہے جسے اس وقت رہبر معظم انقلاب اسلامی کی جانب سے آستان قدس رضوی کو عطیہ کئے گئے اور اسے رہبر معظم کے ہدایا اور عطیہ کی گئی اشیاء کے توشہ خانے میں بحاظت رکھا گیا ہے ۔
۱۸۵۰ اور۱۸۴۵ عیسوی میں انگلستان میں بنائے گئے ایسے دو جغرافیائی گلوب بھی آستان قدس رضوی کے رہبر معظم انقلاب اسلامی کے ہدایا اور تحائف والے میوزیم میں موجود ہیں جن پر خلیج فارس کا نام انگریزی میں درج ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ نے خلیج فارس کا نام کس طرح سے وسیع پیمانے پر بیان کیا ہے ۔
آپ کا تبصرہ