مسجد گوہرشاد کا طرز تعمیراور تاریخی پس منظر

حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی نورانی بارگاہ کے جوار میں ایک شاندارمسجد واقع ہے جوفن تعمیر اور تاریخی پس منظر کےلحاظ سے ایران کی بیش قیمت ثقافتی میراث میں شمار ہوتی ہے ،جس کا نام مسجد گوہر شاد ہے ۔

یہ مسجد ایک ایسی خاتون کی یادگار ہے جس کا نام تہذیب سازی،وقف و عطیات اور اسلامی فن  معماری   کی شان و شوکت کے ساتھ جڑا ہوا ہے ،لیکن ایک تلخ سیاسی تقدیر کی وجہ سے اس خاتون  کا مزار حرم امام رضا(ع) میں نہیں بلکہ افغانستان کے شہرہرات میں واقع ہے۔ 
آستان قدس رضوی کی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے شعبہ ثقافت کے محقق جناب بہزاد نعمتی نے مسجد گوہر شاد کے یوم تعمیر کی مناسبت سے آستان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اس مسجد کو تیموری فن تعمیر کا ایک یادگار اور درخشاں نمونہ قرار دیا ۔
انہوں نے   کہا کہ مسجد گوہر شاد کو گوہر شاد خاتون کے حکم پر 812 قمری میں تعمیر کیا گیا ،یہ مسجد چار ایوانوں پر مشتمل ہے جسے تیموری دورحکومت میں قوام الدین شیرازی کے توسط سے تعمیر کیا گیا۔ 
یہ مسجد فن تعمیراور تزئینات و آرائش کے اعتبار سے ایک منفرد شاہکار ہے جو صدیوں سے اپنی شان و شوکت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ 
جناب نعمتی نے   بتایا کہ قوام الدین شیرازی کو اس مسجد کی تعمیر کے وقت بہت سارے چیلنجز کا سامنا تھا جن میں سے ایک یہ تھا کہ وہ ایک ایسی شاندارمسجد تعمیر کرنا چاہتے تھے  جس کا سایہ حرم امام رضا(ع) پر نہ ہویہی وجہ ہے کہ اس مسجد کو باہر سے کوئی خاص ڈیزائن نہیں کیا گیا،باہر سے دیکھنے پر ایسا لگتا ہے کہ یہ مسجد حرم کے ڈھانچے میں ضمّ ہو گئی ہے لیکن اس کا اندرونی حصہ ایوانوں اور تزئینات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے نہایت خوبصورت ہے ۔ 
اس مسجد کے جنوبی ایوان  کے لئے  جو کہ ایوان مقصورہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے جگہ میں محدودیت کی وجہ سے معمار اس کے لئے علیحدہ گنبد خانہ تعمیر نہیں کر سکے اس لئے گنبد کے نیچے کی جگہ جنوبی ایوان سے ملائی گئی ہے اوراس وجہ سے بھی یہ مسجد دیگر مساجد سے ممتازہے۔ 
مسجد میں فن تعمیر کے شاہکار
مسجد کی خوبصورتی محض فن تعمیر تک محدود نہیں ہے بلکہ دیدہ زیب نقاشیوں اور کاشی کاریوں نے اسے ایک  خاص جلوہ بخشا ہے ،گنبد خانہ کے نیچے خوبصورت نقوش نظر آتے ہیں،مسجد کے شبستانوں کو سادہ پلاسٹر سے سجایا گیا ہے جبکہ دیگر حصوں کو معرق کاشی،معقلی کاشی اورنرہ کاشی سےمزین کیا  گیا ہے ،نیز بایسنقر میرزا کے خطاطی کردہ کتبے جن پر گوہرشاد خاتون کا نام درج ہے آج بھی مسجد کی زینت ہیں۔
حرم کی توسیع و ترقی میں مسجد گوہر شاد کا کردار
جناب نعمتی نے مزید   بتایا کہ یہ مسجد حرم مطہر کی توسیع میں ایک اہم موڑ تھی، اس مسجد کی تکمیل کے بعد دارالحفاظ مکمل ہوااور دارالسیادہ کی بھی مرمت کی گئی،نیز مسجد اور بازار کے درمیان میں ایک چھوٹا سا راستہ بنایا گیا۔
مسجد کی تعمیر کے آٹھ سال بعدگوہر شاد خاتون نے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے مفصل وقف نامہ ترتیب دیا اور مسجد کے لئے بہت سارے اثاثے وقف کئے ،یہ موقوفات اور عطیات اتنے زیادہ تھے کہ جس نے صدیوں تک اس کی دیکھ بھال کے اخراجات کو یقینی بنایا۔
بلا مبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تیموری دور کی تمام تعمیرات میں مسجد گوہر شاد  سب سے اعلیٰ اور شاندار عمارت ہے ۔ 
انہوں نے   بتایا کہ گوہر شاد خاتون نے ایک اور مسجد ہرات میں بھی تعمیر کروائی لیکن اس مسجد میں گوہر شاد مسجد جیسی رونق نہیں ہے تاہم گوہر شاد خاتون کا مزار اسی ہرات مسجد میں واقع ہے ۔
وقف کرنے والی خاتون  کی زندگی کا تلخ     اختتام 
جناب نعمتی نے بتایا کہ گوہر شاد خاتون کو اگرچہ مسجد گوہر شاد سے شدید محبت تھی لیکن اس کے باوجود اس جگہ دفن نہیں ہوئی،88 سال کی عمر میں ہرات شہر میں سیاسی سازشوں کا شکار ہوئیں اور وہیں پر دفن کی گئیں،البتہ اس کی یہ دلی خواہش تھی کہ اسے جوار امام رضا(ع) میں دفن کیا جائے ۔ 
مسجد گوہر شاد نہ فقط زائرین اور مجاورین کے لئے محل عبادت ہے بلکہ فن ،ایمان اور اسلامی ثقافت کی مظہر و علامت ہے ۔ 
یہ مسجد آج بھی گوہر شاد خاتون کی یاد دلاتی ہے ایک ایسی خاتون جو اپنی تمام تر آرزوؤں کے باوجود مشہد مقدس میں دفن نہ ہوسکیں لیکن ان کانام اور یاد ہمیشہ امام رضا(ع) کی بارگاہ میں زندہ رہے گا۔ 

News Code 7138

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha