آستان نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ مؤرخہ 23 دسمبر2024 بروز سوموار کی عصر کو حرم امام رضا(ع) کے رواق دارالمرحمہ میں ’’مزاحمت اور انقلاب کا روشن راستہ‘‘کے عنوان سے ممتازاور ایلیٹ افراد کی موجودگی میں اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں آیت اللہ احمد مروی نے ام الائمہ حضرت فاطمہ زہراء(س) کے یوم ولادت اور حضرت امام خمینی(رہ) کے یوم پیدائش کی مناسبت پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ روز مرّہ مسائل کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں سوالات اورابہامات جنم لیتے ہیں،ان حساس حالات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی جہاد بیان کے علمبردار کی حیثیت سے ہمیشہ میدان میں حاضر ہوئے اور لوگوں کی فکری قیادت اور راہنمائی کی ذمہ داری کو سنبھالا ہے ۔
انہوں نے جہادِ بیان کی ذمہ داری کو عمومی جانتے ہوئے کہا کہ جہادِ بیان ایک ایسا فریضہ ہے جسے مشترکہ طور پر تمام افراد کو انجام دینا چاہئے اوراس کا سارا بوجھ فقط قیادت پر نہیں ڈالنا چاہئے،جہادِ بیان جس پر رہبر معظم انقلاب اسلامی ہمیشہ سے زور دیتے آئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کے فکری چیلنجز اور پروپیگینڈوں سمیت دور حاضر کے مسائل کا سامنا کرنے کے لئے فعال ہو کرروشن فکری کی جائے ۔
آیت اللہ مروی نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے دشمن کی سافٹ وار اور سائبر اسپیس کے استعمال کے ذریعہ عوام میں مایوسی پیدا کرنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں جہادِ بیان بہت ضروری ہے اور حکام کو چاہئے کہ وہ عوام کو امید دلائیں اور اپنی کامیابیوں کو بیان کرتے ہوئے دشمن کی تفرقہ بازیوں کو پھیلنے سے روکیں۔
حضرت فاطمہ(س) جہادِ بیان کا کاملترین نمونہ ہیں
آستان قدس رضوی کے متولی نے حضرت فاطمہ زہراء(س) کی اتباع اور پیروی کی اہمیت کو بیان کیا اور انہیں اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں کے لئے رول ماڈل قرار دینے اور جہادِ بیان میں انہیں اپنے لئے نمونہ قرار دینے پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ حضرت فاطمہ زہراء(س) کی ایک اہم نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ آپ(س) تمام مردوں اور عورتوں کے لئے جہادِ بیان میں نمونہ عمل ہیں، حضرت فاطمہ زہراء(س) نے اپنی زندگی کے کسی بھی لمحے میں ولایت اور حق کے دفاع میں کوتاہی نہیں کی۔
انہوں نے حضرت فاطمہ زہراء(س) کی نمایاں خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آپ(س) نے اپنے فرامین اور خطبات سے روشن فکری کی اور حق کے دفاع کے لئے ہمیشہ مبارزہ کرتی رہی ہیں۔
داعش کی وحشی گری تحریک کو ایران اور مزاحمت نے شکست دی
آستان قدس رضوی کے متولی نے شام اور عراق میں ایران کی موجودگی سے متعلق سوالات اور شکوک و شبہات کا واضح جواب دینے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ہم نےشام میں اتنا خرچ کیا ، اس کے نتیجے میں ہمیں شام سے کیا حاصل ہوا؟اس سوال کے جواب میں یہ کہا جانا چاہئے کہ ’’تکفیری داعشی دہشتگردوں کے فتنے کے خلاف جنگ کی وجہ سے ایران اور اس کے اطراف کے ممالک کی امن و سلامتی کو استحکام ملا‘‘ ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا تھا کہ اگر ہم شام اور عراق میں داعش کا مقابلہ نہ کرتے تو ہمیں ان سے اپنے ملک کے اندر لڑنا پڑتا ، یہ حقیقت محض ہے فقط تجزیہ نہیں ہے ۔
انہوں نے شام اور عراق میں داعش کے جرائم کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور خطے کی سلامتی کا دفاع خصوصاً داعش کے جرائم کے مقابلے میں ایک ضرورت تھی اگر ایران ؛ شام اور عراق میں داعش کا مقابلہ نہ کرتے تویہ خطرات ایران کے اندر پہنچ جاتے،داعش کا اصلی مقصد اہلبیت(ع) کے مزارات کو تباہ کرنا تھا ،اہلبیت(ع) کے مزارات کے دفاع کے لئے ایران کی شام میں موجودگی سے ان مقدس مقامات پر حملوں کو روک دیا گیا۔
آیت اللہ مروی نے داعش ایک وحشی تحریک تھی جس نے اسلام پر ناقابل تلافی ضربیں لگائیں،اس وحشی گروہ نےعراق اور شام کے سول اور فوجی انفراسٹرکچر کو تقریباً 500 بلین ڈالر کا نقصان پہنچایا،انہوں نے دو ہزار شیعہ جوانوں کو یونیورسٹیوں سے گرفتار کیا اور شط فرات کے قریب سب کے سر قلم کر دیئے یہ داعش کے جرائم کا فقط کچھ حصہ ہے ۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اس وحشی گروہ کو تربیت دی اور مالی اور عسکری مدد کی، ان کا اصلی ہدف ایران تھا ،ہم شام اور عراق میں موجود رہے تاکہ ان کی وحشی گری کو پھیلنے سے روکا جا سکے اور اہلبیت(ع) کے مزارات کے دفاع کے لئے قدم اٹھایا گیا، کون سا شیعہ اور کم از کم تھوڑا سا مذہبی ضمیر رکھنے والا انسان اہلبیت(ع) کے مزارات کی توہین برداشت کر سکتا ہے ؟
آستان قدس رضوی کے متولی نے اس بیان کے ساتھ کہ اگر داعش شام اور دمشق تک پہنچ جاتی تو وہ یقیناً کسی پر رحم نہیں کرتی اور تمام مقدس مزارات کو تباہ کر دیتی، کہا کہ کیا مقدس مقامات کی نسبت ہم پر کوئی فرض نہیں بنتا؟ان کے ہاتھ ان مقدس مقامات تک نہ پہنچیں اور آخرکارتباہ ہو کر ایک کونے میں محصور ہوگئی،اب شام کے حکمرانوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ شام کے مقدس مقامات کی حفاظت کے لئے ہم علیحدہ سے ایک خصوصی گروپ بنا رہے ہیں ،یہ اقدام ہماری مزاحمت کا نتیجہ ہے کہ ہم نے یہ واضح کر دیا تھا کہ اگر مقدس مقامات پر حملہ ہوا تو عالم اسلام چپ نہیں بیٹھے گا،وہ اس بات کی طرف متوجہ ہو چکے ہیں یہ ایک خطرناک کھیل ہے اورایران نے دکھایا کہ وہ اس طرح کے حملوں کو دبانے کے لئے اپنی طاقت کا استعمال کرے گا۔
انہوں نے مزید یہ کہا کہ ہم نے مزارات اہلبیت(ع) کے دفاع کے لئے ہر طرح کا دفاع اور حمایت کی،اس کے علاوہ ایک اور اہم کامیابی قوموں اور نوجوانوں میں صیہونیت کا مقالہ کرنے کےلئے مزاحمتی گروہ تشکیل پائے۔
صیہونیت کا مقابلہ کرنے کےلئے امت مسلمہ کا اتحاد ضروری ہے
آستان قدس رضوی کے متولی نے اسرائیل کا جنوبی لبنان پر قبضہ کرنے کی کوشش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے بارہا کوشش کی کہ جنوبی لبنان کے حساس علاقے پر قبضہ کر لے لیکن حزب اللہ نے مزاحمت کی اوراسرائیل جنگ بندی کرنے پر مجبور ہوا،اسرائیل نے ہمیشہ اپنی جارحیت اور بربریت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن حزب اللہ نے بھی یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر انہوں نے حسن نصراللہ کو کھو بھی دیا توپھر بھی مزاحمت باقی رہے گی۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیل کسی بھی طرح مذاکرات اور جنگ بندی کا حامی نہیں ہے اور کیونکہ وہ جنگ جاری نہیں رکھ سکا اس لئے اس نے جنگ بندی قبول کی ، اس وقت غزہ، یمن اور لبنان کا مزاحمتی محور خود کفیل ہوچکا ہے البتہ اس میں ایران کا کردار فقط مستشاری اور مشاورتی تھا۔
آیت اللہ مروی نے حزب اللہ کی لبنان میں مزاحمت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور صیہونیزم کے خلاف مزاحمت کو بنیادی ترجیح ہونی چاہئے ، ایسے حالات میں جب دشمن اندرونی اختلافات کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے مشترکہ دشمن کے خلاف یکجہتی اور مقابلہ ضروری ہے ۔
آخر میں آستان قدس رضوی نے اس بات پر تاکید کی کہ جہاد اور مزاحمت کے راستے میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں ، ہمیں ہر طرح کی مایوسی سے بچنا چاہئے اور خدائی مدد اور یقینی فتح پر یقین رکھنا چاہیئے ۔
مرکز میں غیرضروری مسائل پر توجہ نہیں دینی چاہئے
آستان قدس رضوی کے متولی نے موجودہ حالات میں تفصیلی تجزیے اور عوام کا حکومت اور قیادت پر اعتماد کو مضبوط بنانے کو بنیادی اصل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم رہبر معظم انقلاب اسلامی کو امام زمانہ(عج) کانائب اور ولی فقیہ مانتے ہیں تو ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے کہ نہ زیادہ انقلابی بنیں، نہ زیادہ بہادر بنیں نہ ہی قیادت سے آگے چلیں اور اور نہ ہی قیادت سے پیچھے رہیں کیونکہ اس طرح کی رفتار اور رویہ انحراف کا باعث بنتا ہے ۔
انہوں نے مزید یہ کہا کہ تمام عہدیداروں کو چاہئے کو وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کو مطمئن کریں انہیں کامیابیوں اور پیشرفت کے بارے میں آگاہ کریں اور ساتھ میں مشکلات اور مسائل کو بھی بیان کریں تاکہ وہ یہ محسوس نہ کریں کہ حکام صورتحال سے واقف نہیں ہیں،اس شفافیت سے لوگوں کا اعتماد مضبوط ہوگا ۔
آیت اللہ مروی نے عوام میں امید کے جذبے کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ہمیشہ امید کی اہمیت اور امیدوار رہنے پر زور دیا ہے اس سے نہ فقط معاشرے میں یکجہتی کو تقویت ملتی ہے بلکہ مشکلات ،مسائل اور چیلنجوں کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔
انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ یکجہتی کو فروغ دیا جائے اور اختلاف و حوصلہ شکنی سے گریز کیا جائے ، کہا کہ ہمیں مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھنے کی ضرورت ہے اور حواشی کو متن سے الگ کرنا چاہئے ،ہمیں غیر ضروری مسائل پر توجہ نہیں دینی چاہئے ،بہت سارے کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہر کام کا اپنا وقت ہوتا ہے ۔
آج ہمارا بنیادی مسئلہ فلٹرنگ یا کوئی خصوصی ایجنڈا نہیں ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ بے رحم دشمنوں کے خلاف موجودہ ضروری مسائل کا صحیح اداراک کیا جائے ۔
آستان قدس رضوی کے متولی نے کہا کہ آج ہر وہ چیز جو سماجی سرمائے کو نقصان پہنچائے یا ہر وہ اقدام جس سے سماجی ہم آہنگی کمزور ہو اور تفرقے کا باعث بنے ملک کے لئے خطرہ ہے ،معاشرے میں ہر طرح کا تفرقہ ڈالنا اور دوگانگی پیدا کرنا خطرناک ہے ۔
آیت اللہ مروی نے حضرت امام خمینی(رہ) کے فرمان پر’’اگریہ انقلاب متاثر ہوا تو اسلام پانچ سو سالوں تک کھڑا نہیں ہو پائے گا‘‘روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اختلافات سے بچنا چاہئے ،کیونکہ شام کے معاملے میں انہوں نے شہروں کو فتح کرنے سے پہلے لوگوں کے دلوں اور ذہنوں کو فتح کیا تھا، دشمن نے لوگوں میں مایوسی اور تفرقے کے ذریعے عوامی سطح پر مایوسی پیدا کی جس کے نتیجے میں مختصر عرصے میں پورے ملک پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
آپ کا تبصرہ