عتبہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛بروز بدھ مؤرخہ۱۷ جنوری۲۰۲۴ کوآستان قدس رضوی کی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن میں ’’امام رضا(ع) اور مختلف ادیان و مذاہب کے ساتھ گفتگو‘‘ کے عنوان دوسری بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا،جس میں حجت الاسلام والمسلمین احمد مروی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ تمام الہیٰ مذاہب انسانی معاشرے کی ہدایت و راہنمائی کے لئے تشکیل پائے ہیں،کہا کہ توحیدی مذاہب و مسالک کے درمیان فرق درجات کے لحاظ سے ہے جو کہ ہر دور کے خاص تقاضوں کی وجہ ان میں پایا جاتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ توحیدی ادیان و مذاہب معاشرے کی ترقی کا باعث ہیں،انہوں نے ادیان و مذاہب کو انسانیت کے اتحاد کا سرچشمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا طلب اور برے انسانوں نے سب سے پہلے الہیٰ اور توحیدی مسالک و مذاہب کے انکار کی کوشش کی اور پھران ادیان و مذاہب کو اختلافات اورلڑائی جھگڑے کا محورو مرکز قرار دینے کی کوشش کی۔
حرم امام رضا علیہ السلام کے متولی نے مزید اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ چند دہائیوں میں توحیدی مسالک و مذاہب کے مصلحین اور راہنماؤں نے بین المذاہب و بین المسالک گفتگو کے مسئلے کو سنجیدگی سے اٹھایا ہے اور اس سلسلے میں مختلف ممالک کے اندر متعدد علمی میٹنگز کا انعقاد کیا گیا ،حالانکہ کئی صدیاں پہلے سے حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے خدا کے ولی اور حجت ہونے کی حیثیت سے تمام مذاہب و مسالک کے پیشواؤں اور راہنماؤں کو مناظرے اور گفتگو کی دعوت دی تھی اور اسی تناظر میں امام (ع) نے بین المذاہب گفتگو پر بھرپور توجہ دی ،یہ وجہ تھی کہ آپ(ع) اس طرح کے اجلاس وغیرہ میں خود شریک ہوتے اور ان کی قیادت فرماتے۔
گفتگو کو جاری رکھتے ہوئ کہا کہ خداوند متعال کا شکر ادا کرتے ہیں کہ حضرت امام علی رضا(ع) کے مبارک نام کے سائے میں بین المسالک و بین المذاہب گفتگو کے بانی ہیں،اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے مناظروں کا مواد اور روش کے لحاظ سے مطالعہ اور تجزیہ قابل غور ہے کیونکہ اس سے ہمیں گفتگو کا بہترین نمونہ ملے گا،امید کرتے ہیں کہ اس حرم مطہر اور امام رضا(ع) کے مبارک نام کی برکت سے اس انسانی اور توحیدی تحریک کو پوری دنیا میں فروغ دے سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے جو کچھ رہبر معظم انقلاب اسلامی سے سیکھا ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ عام طور پر جب مختلف رپورٹس کو دیکھتے ہیں تو ایک سوال کرتے ہیں کہ اس کام کا نتیجہ کیا نکلے گا؟
حرم امام رضا علیہ السلام کے متولی نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی کانفرنسوں کا انعقاد فقط فارمیلٹی کے طور پر نہیں ہے بلکہ ہمیں ان کے نتائج کے بارے میں سوچنا ہوگا،جب تک ہم مدارس اور یونیورسٹیوں کی حد تک اور علمی بحث و گفتگو میں مصروف رہیں گے ہمیں کسی بھی دشمنی کا سامنا نہیں ہوگا لیکن جیسے ہی ان مباحث اور گفتگو کے نتائج کو معاشرے میں نافذ کریں گے تو پھر مسائل اور رکاوٹیں خود بخود ظاہر ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ان کانفرنسوں کے نتائج کو معاشرے میں عملی جامہ پہنانے کے لئے باقاعدہ ایجنڈا اور لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے ۔
حجت الاسلام والمسلمین مروی نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ وہ افراد جو بین المسالک اور بین المذاہب لڑائی جھگڑے کے خواہاں ہیں ان کے مدّ مقابل بین المذاہب اور بین المسالک گفتگو شروع کی جائے ،اس لئے ان کانفرنسوں میں علمی مباحث کے ساتھ دینی و مذہبی گفتگو اور مکالمے کو معاشرے میں فروغ دینے کی حکمت عملیاں بنائی جائیں اور اس کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے طریقوں کا بغور جائزہ لیا جائے ۔
آپ کا تبصرہ