عالمی کانگریس حضرت رضا(ع) کے انعقاد کا مقصد قرآنی بنیادوں پر عدل و انصاف کا قیام ہے

عالمی کانگریس حضرت رضا(ع) کے جنرل سیکرٹری نے کانگریس کے پانچویں دورے کے ماٹو یا شعار’’عدالت سب کے لئے،ظلم کسی پر نہیں‘‘ کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ موجود حالات میں عدل و انصاف کے قیام اورحقیقت کے حصول کے لئے باہمی ہمفکری کرنا اورعدل وانصاف پر مبنی نظریات اورطرز عمل کو فروغ دینا،عدل وانصاف کے موضوع میں قرآن کو محور و مرکز بنانا،ظلم اور سماجی امتیازات کے خاتمے کا راستہ تلاش کرنا اور امام رضا(ع) کے توحیدی اور عدل وانصاف کے فروغ پر مبنی افکار و نظریات کے تحت تمام افکار و نظریات کو یکجا کرنااس کانگریس کےانعقاد کے اہم ترین اہداف و مقاصد ہیں۔

عتبہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ تہران میں ’’رضوی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی تہذیب اور عدل و انصاف‘‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والے اجلاس کے دوران عالمی کانگریس حضرت رضا(ع) کےجنرل سیکرٹری حجت الاسلام والمسلمین سعید رضا عاملی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی امامت ۲۰ سال پر مشتمل تھی جس میں آپ کے پانچ سال ولایتعہدی کے دوران گزرے،انہوں نے کہا کہ ہم شیعوں کو ولایت عہدی کے ان پانچ سالوں کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے،اس دوران آپ (ع) کا طرز عمل تعامل اورباہمی میل جول پر تھا،آپ(ع) کی اس دوران دیگر ادیان و مذاہب کے علماء اور دانشوروں سے ہونے والی گفتگوکو مختلف ماخذ اورکتب میں من جملہ احتجاج طبرسی میں ذکر کیا گیا ہے ۔

 انہوں نے مزید یہ کہا کہ امام رضا علیہ السلام  گذشتہ ادیان و مذاہب بشمول یہودیت،زرتشت اور عیسائیت پر مکمل تسلط اور مہارت رکھتے تھے جو کہ آپ کے کلام سے بھی واضح نظر آتی ہے ؛یہودی عالم جالینوس نےایک مناظرہ کے دوران  امام علیہ السلام سے کہا کہ آپ(ع) قرآن سے دلیل لانا چاہتے ہیں حالانکہ میں تو فقط تورات سے واقف ہوں تو اس وقت امام علیہ السلام نے تورات سے دلیل پیش کر کے مناظرہ جیت لیا،یعنی امام علیہ السلام خود یہودی عالم جالینوس سے بھی بہتر تورات کو جانتے تھے۔

حجت الاسلام عالمی نے اس بیان کے ساتھ کہ ہمارےپاس امام رضا(ع)کا بہت بڑا علمی سرمایہ موجود ہے لیکن ہم اس سے اچھی طرح استفادہ نہیں کر سکے، کہا کہ افلاطون کے زمانے کو دو ہزار سال گزر چکے ہیں لیکن اب تک اسے علمی اتھارٹی حاصل ہے لیکن آئمہ معصومین علیہم السلام کے فرامین اور اقوال کے حوالے سے ہمیں اس طرح کی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ،لہذا ہمیں قرآن و عترت کی بنیاد پر تالیف کے لئے نصوص کی طرف جانا ہوگا۔

عالمی کانگریس حضرت رضا(ع) کے جنرل سیکرٹری نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم موجودہ نظریات سے واقف نہیں ہیں لیکن ہمیں اپنے عظیم علمی ورثے کو مشکوک نظریات کی بنیاد پر ترک نہیں کرنا چاہئے ۔

انہوں نے مزید یہ کہا کہ’’ تعلیمات رضوی کی روشنی میں اسلامی تہذیب اور عدل وانصاف‘‘ کے موضوع پر پہلی کانگریس ۱۹۸۹ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کی، اعلی سطحی حکام اور علمائے کرام نے ان کانگریسوں میں خطاب کیا اور اس کے چار دورے اکھٹے منعقد کئے گئے، چوتھی کانگریس میں یہ محسوس کیا گیا کہ مطالب مکمل ہو چکے ہیں اور امام رضا(ع) کا کوئی نیاکلام موجود نہیں ہے اس لئے کانگریس کے انعقاد کا سلسلہ روک دیا گیا اور پھر گذشتہ سال حجت الاسلام مروی نے فیصلہ کیا کہ کانگریس کو دوبارہ سے منعقد کیا جائے ۔

حجت الاسلام عاملی نے مزیدوضاحت دیتے ہوئے کہا کہ عدالت  یا انصاف ایک ایسا تصور نہیں ہے جس کی تعریب سماجی رفتار کے بغیر کی جائے ؛آج غزہ کے مسائل کو حل کئے بغیر انصاف پر بات نہیں کی جاسکتی،اس ملک کی ۷۰ فیصد آبادی بحران کا شکار ہے اور اب تک ۱۴ ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں،اس  پر ہم نے عالمی عکس العمل بھی دیکھاجس سے پتہ چلتا ہے کہ انصاف اور ظلم کوئی دینی یا مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ دین و مذہب سے بالاتر ہے ،یہ عکس العمل انسانوں کے عالمی انصاف پسند ضمیر سے پیداہوتا ہے اسی وجہ سے ہم نے اس کانگریس کے لئے ’’عدالت سب کے لئے ؛ ظلم کسی پر نہیں‘‘ کا عنوان انتخاب کیا ہے ۔

عالمی کانگریس حضرت رضا(ع) کے سیکرٹری نے کہا کہ انصاف کا مطلب مساوات اور برابری نہیں ہے بلکہ معاشرے اور سماجی طبقے کے ہر فرد کو اس کا حق دینا ہے ،انہوں نے کانگریس کے اہداف و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ موجود حالات میں عدل و انصاف کے قیام اورحقیقت کے حصول کے لئے  باہمی ہمفکری کرنا اورعدل وانصاف پر مبنی نظریات اورطرز عمل کو  فروغ دینا،عدل وانصاف کے موضوع میں قرآن کو محور و مرکز بنانا،ظلم وستم ،سماجی امتیازی سلوک اورزندگی کے حق سے محرومی کے خاتمے  کا راستہ تلاش کرنا ، شیطانی تسلط کی بجائے الہی حقیقت کو قائم کرنے کے لئے امام رضا(ع) کے توحیدی اور عدل وانصاف کے فروغ پر مبنی افکار و نظریات کے تحت تمام افکار و نظریات کو یکجا کرنا اوروسیع پیمانے پر استعمال ہونے والے عام مفاہیم و تصورات کے مابین مفاہمت اور ہم آہنگی پیدا کرنابشمول انصاف،حقیقت،کرامت اور وقار،امتیازی سلوک،ظلم و ستم،تنازعات اور ان کا راہ حل کے ساتھ ان پالیسیوں اور اقدامات پر خصوصی توجہ دینا جن کی وجہ سے دنیا میں اخلاقی تنزلیاں اور ناکامیاں پیدا ہوئی ہیں  جملہ اس کانگریس کے اہداف و مقاصد ہیں۔
نسبیت گرایی(epistemological relativism) معاشرے میں دینی رجحان کو کم کرنے کی اہم وجہ ہے
جناب عاملی نے اس بیان کے ساتھ کہ تکثر گرایی(عوام میں رائج مختلف عقائد و سلائق کا قبول کرنا)؛نسبیت گرائی کا باعث بنی ہے ،کہا کہ حالیہ چند برسوں کے دوران ایران میں مغری نسبیت گرائی میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجہ میں شک گرائی مزید مستحکم ہوئی ہے میری نظر میں دینی رجحان کی ایک وجہ نسبیت گرائی ہے جو تکثر گرائی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔

عالمی کانگریس حضرت رضا(ع) کے جنرل سیکرٹری نےکہا کہ انصاف معاشرتی زندگی اور باہمی تعلقات کی ضرورت ہے اور یہ ہرگز ختم نہیں ہوگی اور ظہور امام زمان(عج) تک انصاف کا مسئلہ بنیادی مسئلہ ہے ،انہوں نے کہا کہ آج امریکہ کے ۹۰ فیصد معاشی وسائل فقط ۱۰ فیصد افراد کے قبضے میں ہیں اور یہی صورتحال دوسرے ممالک میں بھی ہے  اور ہم بھی بعض معاملات میں لبرل اور بعض میں سوشلسٹ ہیں ،ہم نے اقتصادیات میں کوئی خاص ماڈل وضع نہیں کیا ،لہذا اس سلسلے میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے بیانات اور فرامین بہت زیادہ مفید اور مدد گارثابت ہوں گے۔
جناب عاملی نے کہا کہ انصاف کے قیام اور ظلم کے خاتمہ کے لئے مزاحمت اور مقاومت اس کانگریس کے دیگر موضوعات میں سے ہے ،انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ آج جدید اور نئے فکری و سماجی مسائل جیسے طلاق،ایک سرپرست والے خاندان اوربی معنی زندگی  وغیرہ کو مدّ نظر رکھنا ضروری ہے آج کے دور میں انسانی خود شناسی کا بحران عروج پر ہے بہت سے افراد ایسے ہیں جواپنے مرد ور عورت ہونے کی پہچان تک کو نہیں جانتے،کیونکہ امریکی اور مغربی ممالک کے اسکولوں میں ایسی لازمی تعلیم پائی جاتی ہے جو اس طرح کے بحران اور مسائل کی اصلی وجہ ہے ،یقیناًشناخت کا بحران فقط جنس تک محدود نہیں ہے بلکہ بہت ساری جہات کی وجہ سے بی معنی زندگی کو جنم دینے کا باعث بنا ہے ۔
عالمی کانگریس امام رضا(ع) کے سیکرٹری نے اس بیان کے ساتھ کہ ’’امام رضا(ع) اور مستقبل کے لئے نئے افق کا آغاز‘‘ بھی اس کانگریس کا ایک موضوع ہے ،کہا کہ ہماری روشنفکری باعث بنی ہے کہ اپنے ملک کے بہت سارے مسائل کو نیویار اور لندن کے مسائل کی طرح تصور کریں ،اگرچہ معاشرہ بھی کسی حد تک اسی طرف گیا ہے لیکن ہمیں قومی و مقامی مسائل کو بالکل ان جیسا نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ ہمیں رضوی تعلیمات کی بنیاد پر ان مسائل کے  لئے ایک واضح راستہ اختیار کرنا چاہئے۔
انہوں نے اس بیان کے ساتھ کہ کانگریس کا ایک اور موضوع عدل وانصاف کے مسئلہ پر  امام رضا(ع) کا تہذیبی نقطہ نظر ہے ،کہا کہ تہذیب اس ثقافت کا ایک لازوال حصہ ہے جس کے ساتھ ہم زندگی گزارتے ہیں میری نظر میں ثقافت ایک خاص طرز زندگی کا نام ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ مختلف ثقافتوں اور مختلف علاقوں میں فرق پایا جاتا ہے ؛ثقافت ایک طرح کی شناخت ہے اور تہذیب وہ چیز ہے جو ثقافت میں باقی رہ جاتی ہے ۔

جناب عاملی نے کہا کہ سید حسین نصر جیسے بعض افراد تہذیب کو صرف ماضی کا حصہ سمجھتے ہیں یعنی تہذیب وہ ہے جو زوال ہو چکی ہے لیکن میں یہ صحیح نہیں سمجھتا ،رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب اسلامی کے دوسرے مرحلے سے متعلق گفتگو میں اسلامی تہذیب کا بنیادی ستون توحید اورانصاف قرار دیا ہے ؛تہذیب وہ عنصر ہے جو ماضی میں شروع ہوا اور اب تک جاری ہے اور مستقبل میں بھی اس کا باقی رہنا ممکن ہے ،لہذا اس کانگریس کی گفتگو کا ایک محور تہذیب و تمدن کی بحث و گفتگو ہے ۔

انہوں نے مزید یہ کہا کہ ہم ایسے مفکرین اور دانشوروں کی تلاش میں ہیں جن کے پاس اس کانگریس کے لئے مواد ہو اورعلوم رضوی کی تہذیب پر ریسرچ کر سکیں اورعصری دنیا کے مسائل اور چیلنجوں کا جائزہ لے سکیں؛مثلا اگر جنگ کے موضوع کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ صر ویٹنام کی جنگ میں ۳۵ لاکھ لوگ مارے گئے ،کارٹر کا کہنا ہے کہ امریکہ نے اپنی تاریخی میں فقط ۱۶  سال جنگ نہیں لڑی،اور ہر جنگ میں نسل کشی کرتے رہے اور آج بھی ان کے پاس ایٹم بم موجود ہے ۔

News Code 2809

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha