دیوان حافظ کے ۵۰۰ سالہ پرانے خطی نسخے کی رونمائی

شہرہ آفاق ایرانی شاعر حافظ شیرازی کی برسی کے موقع پرآستان قدس رضوی کے بروزمنگل کو منعقد ہونے والے علمی و ثقافتی پروگراموں کی سلسلہ وار ۱۸۳ ویں نشست کو ایران کے معروف و مشہور شاعر کے دیوان حافظ کے خطی نسخہ کے تعارف اور رونمائی سے مخصوص کیا گیا ۔

عتبہ نیوز کی رپورٹ مطابق؛ آستان قدس رضوی کے شعبہ مخطوطات کے ماہر اور محقق جناب امیر منصوری نے بروز منگل مؤرخہ۱۰اکتوبر۲۰۲۳ کو مرکزی لائبریری کے قدس ہال میں منعقد ہونے والی نشست کے دوران  پوری دنیا میں دیوان حافظ کے تقریباً پانچ ہزار نسخوں کے موجود ہونے کی نشاندہی کی اوربتایا کہ اب تک اس پورےمجموعہ کے آدھے نسخوں کی فہرست کا اندراج کیا گیا ہے ۔

 انہوں نے کہا کہ دیوان حافظ کے درج شدہ نسخوں کی فہرست کا ۳۳ فیصد مجموعہ ایران کے معتبر کتب خانوں میں بحفاظت رکھا گیا اور باقی نسخے ہندوستان،پاکستان اور ترکی  میں پائے جاتے ہیں۔

آستان قدس رضوی کے شعبہ مخطوطات کے ماہر منصوری نے بتایا کہ دیوان حافظ کے وہ نسخے جو ایران میں پائے جاتے ہیں انہیں بالترتیب ایران کی نیشنل لائبریری،اسلامی کونسل کی لائبریری اور آستان قدس رضوی کی مرکزی لائبریری میں بحفاظت رکھا گیا ہے ۔

انہوں نےدنیا میں پائے جانے والے  دیوان حافظ کے قدیمی ترین نسخوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دیوان حافظ کا قدیمی ترین نسخہ جسے ۸۰۱ میں کتابت کیا گیا تھا اس وقت ترکی کی لائبریری میں موجود ہے۔

انہوں نے ۸۰۳ میں تاشقند کے اندر کتابت ہونے والے نسخہ،۸۰۷ میں تاجیکستان میں کتابت ہونے والے نسخہ اور ۸۲۵ میں استانبول میں کتابت ہونے والے نسخوں کو دنیا میں دیوان حافظ کے قدیمی ترین نسخے قرار دیا۔

آٹھویں صدی ہجری میں ایرانی تہذیب و ثقافت کا آئینہ دار

مشہد مقدس کی فردوسی یونیورسٹی کے شعبہ فارسی زبان و ادب کے اسسٹنٹ پروفیسر اور مرکز آثار و مفاخر(فن پاروں) کے سربراہ   سلمان ساکت نے بھی اس تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تاریخی لحاظ سے جو شخص زیادہ مشہور ہوا ہے اس کے بارے میں ہمارے پاس معلومات کم ہیں کیونکہ اس کی حقیقت کو افسانوں سے ملا دیا گیا اور جو کچھ باقی بچا اس کی تاریخی لحاظ سے ہمارے پاس کوئی سند موجود نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جو مطالب معتبر اور مستند ہیں وہ ایک دیباچہ کی صورت میں ہیں جنہیں اس کے بعدوالے شاعروں نے لکھا۔

  پروفیسر   سلمان ساکت نے ایران کے فارسی زبان شاعرکے علمی مقام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حافظ شیرازی جو کہ قرآن و روایات سے واقف تھے  ،دینی علوم حاصل کرنے کے ساتھ عربی قواعد (صرف و نحو) بھی جانتا تھے  ،ان کی کامیابی کا ایک رازیہی تھا کہ وہ مختلف علوم میں  دسترسی رکھتے تھے   ۔  

 پروفیسرسلمان  ساکت نے حافظ کے اشعار کو ایرانی تاریخ کا ایک یادگار حصہ قرار دیتےہوئے کہا کہ وہ ہماری علمی  وثقافتی  تاریخ  کو اچھی طرح جانتے تھے  ،مغلوں کی تاریخ کے خلاصہ کو ان کے آثار میں دیکھا جا سکتا ہے اور اسی طرح اس دور کے لوگوں اور حکمرانوں کے حالات بھی ان کے اشعار میں پائے جاتے ہیں۔

انہوں نے حافظ کے اشعار کو موسیقی سے سرشار جانتے ہوئے انہیں آٹھویں صدی ہجری میں ایرانی تہذیب و ثقافت کا آئینہ دار قرار دیا ۔

فارسی ادب میں مہارت رکھنے والی بزرگ ہستیوں نے ہماری اقوام کو آپس میں جوڑے رکھا

اس تقریب کے ایک اور معزز مہمان؛صوبہ خراسان رضوی کے ادارہ ثقافت  و ار شاد اسلامی کے سربراہ  محمد حسین زادہ نے اپنی گفتگو کے دوران حرم امام رضا(ع) کی مرکزی لائبریری کی ثقافتی سرگرمیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی تقاریب کے انعقاد سے ایسی عظیم ہستیوں کو متعارف کرانے کا بہترین موقع ملتا ہے جن کی وجہ سے ہماری مذہبی اور قومی شناخت باقی ہے ۔

انہوں نے   کہا کہ فارسی ادب کا آسمان ستاروں سے بھرا ہوا ہے جن میں سے بعض حافظ کی طرح  بہت زیادہ نمایاں اور مشہور ہیں جن کے پوری دنیا میں آثار موجود ہیں اور اسی سے ان عظیم ہستیوں کے ساتھ ان لوگوں کی عقیدت کا پتہ چلتا ہے۔

صوبہ خراسان رضوی  کے ادارہ ثقافت کے سربراہ  حسین زادہ نے ایران کے مشہور و معروف شاعروں کے اشعار کے مواد اورموضوعات کو بنی نوع انسان کی ضرورت جانتے ہوئے کہا کہ  اگر حماسی جذبہ چاہئے تو فردوسی،عرفان وتصوف کی ضرورت ہے تو مولوی،حکمت و نصیحت چاہئے تو سعدی اور جہاں محبت و الفت کی ضرورت ہے وہاں حافظ کی فارسی زبان موجود ہے ۔

انہوں نے ان عظیم شخصیات  کو جنہوں نے ایرانی ذائقہ کو مٹھاس بخشی،فارسی بولنے والی اقوام کے لئے اتحاد و یکجہتی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے فارسی ادیب ہمارے درمیان بندھن کا واسطہ ہے اوراسی طرح ایران سے باہر زندگی کرنے والے افراد کو یہ ادیب ان  افراد  سے بچاتے ہیں جو ایران اور ایران کے ہم زبانوں کے درمیان اختلاف ڈالنا چاہتے ہیں ۔

انہوں نے حافظ شیرازی کے اشعار کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حافظ کی صنف اور جنس خود حافظ سے ہے ان کے اشعار تہہ بہ تہہ ہیں جن کی مختلف زبانوں اور مختلف اصناف کے عام افراد بھی مختلف اور متعدد تشریحات کر سکتے ہیں۔

اسلام کا دفاع کرنے والے  شعراء

آستان قدس رضوی کے دستاویزی مرکز،میوزیمز اور کتب خانوں کی آرگنائزیشن کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین سید جلال حسینی نے دینی  شعراءاوراسلام کا دفاع کرنے والے شاعروں کا پیغمبرخدا(ص) اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے نزدیک جو مقام ومرتبہ ہے اس پرروشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اکرم(ص) کا فرمان ہے کہ تلوار زبان سے زیادہ تیز اور کاٹنے والی ہے اور کفار شاعری کے فن کو لغو اور گمراہ کن امور میں استعمال کرتے تھے، اس دور میں  یہ وہ فن تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا تھا  اور اس کے پیروکاروں کو گمراہ کہا۔

انہوں نے  کہا کہ وہ فن جو ایمان سے نکلا ہواور عمل صالح کو فروغ دیتا ہو اورحق کے دفاع کرنے کے راستے پر گامزن ہو وہ خدا کی بارگاہ میں پسندیدہ ہے ۔

۹۱۹ ہجری میں کتابت ہونے والا دیوان

آستان قدس رضوی کی مرکزی لائبریری کے مخطوطہ مرکز میں دیوان حافظ کے ۱۶۷ خطی نسخے پائے جاتے ہیں یہ تمام نسخے تیموری دورحکومت کے بعد کے ہیں۔

دیوان حافظ کا ایک قدیمی اور قیمتی نسخہ جو اس مخطوطہ مرکز میں بحفاظت رکھا گیا ہے ۹۱۹ ہجری کے ماہ صفر میں علی ہجرانی کے توسط سے ہرات میں کتابت کیا گیا جس میں حافظ کی غزلیں،مثنویات،قطعات اور رباعیاں پائی جاتی ہیں۔

اس ایڈیشن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ تمام غزلوں کو حروف قافیہ کے بنیاد پر لکھا گیا ہے ،اس نسخہ(ایڈیشن) کے پہلے صفحہ پر ایک سرلوح جبالی اور ایک مستطیلی قلمدانی کتیبہ سنہری رنگ میں نوشتہ ہے ۔

 ایڈیشن کے تمام صفحات پر سنہری ، سیاہ اور نیلے رنگ میں ٹیبلیشن ہیں اور کاتب نے اشعار کے درمیان عبارت ’’لہ ایضا‘‘ کو سنہری رنگ میں لکھا ہے ۔

قابل ذکر ہے کہ لیتھوگرافک کتب، مخطوطات اور دیوان حافظ کے شاندار اور قیمتی مطبوعہ نسخوں کی نمائش کا انعقاد بھی اسی پروگرام کا حصہ تھا جسے تقریب کے موقع پر منعقد کیا گیا۔

News Code 2390

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha