آستان نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ یہ اجلاس حرم امام رضا علیہ السلام کے ادارہ پاسخگویی(سوالات کے جوابات) میں منعقد ہوا جس میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے دفتر کے شعبہ نشر و اشاعت کے عہدیدار جناب مہدی فضائلی نے بارہ روزہ مسلط کردہ جنگ کی کمانڈ میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے اہم کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم صیہونی ریاست و امریکہ اور ٹرمپ و نتن یاہو کے مابین کوئی فرق نہیں سمجھتے،ہم نے ان بارہ روزہ جنگ کے دوران ان کی ایک دوسرے کے لئے کھلم کھلا حمایت کو دیکھا ہے
انہوں نے کہا کہ ہمارا اس جنگ میں فقط صیہونی ریاست سے سامنا نہیں تھا بلکہ شواہد موجود ہیں کہ کم از کم بارہ یورپی اور علاقائی ممالک نے امریکہ اور صیہونی ریاست کا ساتھ دیا۔
جناب فضائلی نے بتایا کہ دشمن نے جنگ اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کو ختم کرنے کے منصوبے سے شروع کی تھی اور شواہد کے مطابق انہوں نے ایک دہائی تک اس پر غور کیا اور بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کی تھی ، اس جنگ کا ابتدائی آپریشن نو مہینے پہلے شروع ہوا تھا ۔
ان کا خیال تھا کہ وہ ابتدا میں تہران کو فتح کر لیں گے لیکن جیسا کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خداوند عالم نے ان کے اس منصوبے کو خاک میں ملا دیا۔
جناب فضائلی نے کہا کہ میدان جنگ میں اللہ کی مدد و نصرت پر یقین رکھنا چاہئے اور ہر کامیابی کو اللہ کی جانب سے جاننا چاہئے اس سے ایک تو انسان مغرور نہیں ہوتا اور ثانیاً ہماری نگاہیں ہمیشہ اللہ پر رہتی ہیں۔
دشمن کی پیچیدہ منصوبہ بندیوں کے باوجود مسلسل اللہ کی مدد ہمارے ملک اور قوم کے شامل حال رہی ہے اور ہر خطرے کا ہم نے ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے ۔
قیادت کا جنگ میں مرکزی اور حماسی کردار
اس بارہ روزہ جنگ میں رہبر معظم انقلاب کا کردار اہم اور مرکزی رہا ہے ، جس دن اسرائیل نے حملہ کیا اس نے تمام اہم جرنیلوں اور کمانڈروں کو پہلے ہی جھٹکے میں شہید کر دیا اور تصور یہ تھا کہ صبح جب لوگ سنیں گے تو بہت زیادہ دباؤ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر جنگ کی صحیح منیجمنٹ نہ ہوتی اور اس کی کمانڈ صحیح طرح نہ سنبھالی جاتی تو سپاہیوں اور دانشور طبقے کا مورال اور حوصلہ کمزور پڑ جاتا اور معاشرے پر شدید نفسیاتی دباؤ پڑتا،رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کمانڈ سنبھالتے ہوئے چند گھنٹےمیں نئے کمانڈر مقرر کئے اور عوام سے بھی خطاب کیا اور انہی کی قیادت میں جوابی میزائل حملہ شروع کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ رہبر معظم انقلاب نے عوام کے درمیان رہتے ہوئے اور میدان جنگ میں اپنی موجودگی سے ایک حماسی اقدام انجام دیا ،انہوں نے سوگ نہیں منایا بلکہ شہادتوں پر مبارک باد دی ، عوام کو اطمینان دلایا کہ ہم آخر تک ڈٹے رہیں گے۔
جناب فضائلی نے کہا کہ حتی بیرون ملک میں مقیم اپوزیشن گروپوں نے بھی تسلیم کیا کہ دشمن کے حملے ناکام ہوگئے ہیں اور انہیں شکست ہو چکی ہے ۔
عوامی اتحاد و یکجہتی اور ہم آہنگی کی ضرورت
جناب فضائلی نے کہا کہ اس جنگ میں مختلف طبقات سے رکھنے والے افراد نے اتحاد و یکجہتی اور باہمی ہم آہنگی کا مظاہر کیا ، ہمیں اس اتحاد کو مزید مستحکم کرنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر عوامی اتحاد نہ ہوتا تو بہت ساری مشکلات پیدا ہو سکتی تھیں،اس لئے ہمیں اس اتحاد کومعمولی نہیں سمجھنا چاہئے اور اسے قائم رکھنا بہت ضروری ہے اور یہ زیادہ سے زیادہ جاذبیت اور کم سے کم نفرت کے ذریعہ ہی ممکن ہے ۔
عوام کے سامنے دشمن بے نقاب ہوگیا
جناب فضائلی کا کہنا تھا کہ اس جنگ کا ایک اہم ترین کارنامہ دشمن کی حقیقت کو سمجھنا تھا ،رہبر انقلاب نے گذشتہ برسوں میں بارہا دشمن کے مختلف چہروں کا ذکر کیا،لیکن بعض لوگ اعتراض کرتے تھے اور کہتے تھے کہ امریکہ؛ روس اور چین سے کس طرح مختلف ہے ؟ اس جنگ نے دشمن کا حقیقی چہرہ سب پر واضح کر دیا۔
انہوں نے اپنی گفتگو کے اختتام پر کہا کہ مقاومت و مزاحمت کے محاذ کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اور اسی طرح اسلامی انقلاب کے مستقبل کے لئے نئی نسل کی تربیت بھی ضروری ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ جنگ مختصر تھی لیکن بہت زیادہ اثر انگیز تھی اس نے نوجوانوں کی سوچ کو کافی حد تک بدل دیا ہے اس لئے ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نئی قوتیں تشکیل دینی چاہئے۔

ایران پر اسرائیل کی مسلط کردہ بارہ روزہ جنگ اور اس جنگ کے دوران ایران کی مسلح افواج کی کمان سنبھالنے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کی تدبیر کے موضوع پر ’’خط روشنگری‘‘ کے عنوان سے ساتواں خصوصی اجلاس حرم امام رضا(ع) میں منعقد کیا گیا جس میں آستان قدس رضوی کے خادمین اورملازمین نے شرکت کی ۔
News Code 6888
آپ کا تبصرہ