آستان نیوز کی رپورٹ کے مطابق ؛ حرم امام رضا علیہ السلام کے شعبہ مذہبی سوالات کے جوابات کے زیر اہتمام ’’فتح قریب‘‘ کے عنوان سے پہلا اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں یہودیت اور صیہونیت کے شعبے کے محقق اور اسرائیلی مسائل کے ماہرجناب استاد سہیل کثیری نژاد نےطوفان الاقصیٰ آپریشن کی اہمیت اور اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بعض ناقدین اس دلیل کے ساتھ کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن سے پہلے فلسطینی معمول کی زندگی بسر کر رہے تھے اس لئے اس آپریشن کی مذمت کرتے ہیں،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ غزہ کے محاصرے کی وجہ سے فلسطینیوں کو انتہائی بنیادی حقوق بشمول ایمرجنسی طبی خدمات اور آزادانہ طور پر ان کی نقل و حرکت وغیرہ سے بھی محروم رکھا گیا تھا ۔
طوفان الاقصیٰ آپریشن سے پہلے غزہ میں زندگی بسر کرنے کے مشکل حالات
جناب کثیری نژاد نے غزہ کے ہسپتالوں کی محدود سہولیات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اگر فلسطینیوں کو ایمرجنسی وارڈ میں طبی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی تو ان خدمات تک رسائی کا دورانیہ کم سے کم پانچ گھنٹے تھا ،انہیں اپنے کسی رشتہ دار سے ملنے کے لئے بھی کئی چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ غزہ کی عوام کا ایک مشغلہ اور کاروبار مچھلی پکڑنا ہے لیکن اسرائیلیوں نے ان کے لئے ہر جگہ پر مچھلیاں پکڑنا ممنوع کر رکھا تھا اورفلسطینیوں کوفقط ساحل کے نہایت محدود حصے میں مچھلیاں پکڑنے کی اجازت دی رکھی تھی جس میں مچھلیاں وسیع پیمانے پر موجود ہی نہیں ہوتی تھیں۔
انہوں نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ان وجوہات کے علاوہ جن سے فلسطینی ایک طویل عرصے سے دچار ہیں کچھ مختصر مدت کے واقعات بھی طوفان الاقصیٰ آپریشن کا باعث بنے جن میں سے ایک 2022 میں اسرائیلی37 ویں حکومت کا اقتدار سنبھالنا بھی شامل ہے ، اس حکومت کی ایک خصوصیت شدت پسندی تھی ،خصوصاً ان کی ایک شاخ جو کہ قومی مذہبی کہلاتی تھی اس نے فلسطینیوں کے ساتھ نہایت وحشیانہ رویہ روا رکھا جسے حتی خود اسرائیلی معاشرہ بھی برداشت نہ کرسکا اور ’’اصلاحات غزہ‘‘ کے نام سے پیدل مارچ نکال کر ان کے رویّوں کے خلاف احتجاج کیا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ قومی مذہبی شدت پسندگروپ مسجد الاقصیٰ کی تخریب چاہتے تھے ،حتی فقہی اصولوں کے مطابق مسجد اقصیٰ میں سیاسی عہدیداروں کے داخل ہونے پر پابندی تھی اس کے باوجود بن گویر متعدد بار مسجد میں داخل ہوئے اور اس مسئلے کی وجہ سے مسجد الاقصیٰ کی تخریب کا احتمال بڑھ گیا۔
اس کے علاوہ جو چیز زیادہ اہم ہے وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا معمول پر آنا تھا جو کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن سے پہلے بہت زیادہ خطرناک حد تک پہنچ چکے تھے،چند ایک عرب ممالک وائٹ ہاؤس کے حکم پر اسرائیل کے ساتھ سرکاری سطح کے تعلقات قائم کر رہے تھے ۔
انہوں نے مزید یہ کہا کہ چونکہ میڈیا پر اسرائیلی حاکم تھے اس لئے ان مسائل پر کوئی اعتراض یا احتجاج نہیں ہوتا تھا اس لئے فلسطینی مظلوموں کی آواز کہیں نہیں پہنچتی تھی،ان حالات میں مزاحمتی قیادت نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کر کے خطے کی تاریخ میں ایک نیاباب رقم کیا۔
واضح رہے کہ اس خصوص اجلاس کے اختتام پر اجلاس کے شرکاء نے طوفان الاقصیٰ آپریشن سے متعلق مختلف سوالات بھی پوچھے۔
یہودیت اور صیہونیت کے شعبے کے محقق کا کہنا تھا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن نے خطے میں اسرائیل کے وجود کو خطرے میں ڈال کر اسرائیل کو 70 سال پیچھے دھکیل دیا ہے ۔
News Code 4984
آپ کا تبصرہ