جناب مرتضیٰ انفرادی نے حرم امام رضا علیہ السلام اور مشہد مقدس میں ماہ محرم الحرام کے دوران عزاداری سے متعلق منعقد کی جانے والی رسومات کے بارے میں آستان نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے دیگر شہروں کی طرح مشہد مقدس میں بھی محرم الحرام کے حوالے سے خاص آداب اور روایتی رسمیں پائی جاتی ہیں البتہ محرم کے پہلے عشرے میں یہ رسومات زیادہ دیکھنے میں آتی ہیں ،محرم اور عزاداری کی ہر رسم کے پیچھے ایک وجہ یا ایک فلسفہ پایا جاتا ہے جس سے لوگوں کی امام حسین علیہ السلام سے محبت و عقیدت کا پتہ چلتا ہے ۔
پرچم (علم)تبدیل کرنے کی روایتی رسم
جناب انفرادی نے مشہد مقدس میں پرچم کی روایتی رسم کی تاریخ اور تأسیس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تیموری دور حکومت کے اختتام سے حرم امام رضا علیہ السلام میں علم یا پرچم پایا جاتا ہے جسے بادشاہوں اور سرداروں کے استقبال کے لئے یا شہر کو حملہ آورں کے حوالے کرتے وقت باہر لایاجاتا تھا۔
اس محقق نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ فضل اللہ بن روزبھان خنجی ،خراسان پر ازبکوں کے حملوں کےو اقعات کا ذکر کرتے ہوئے اور915ھ۔ق میں شیبک خان کی حرم امام رضا علیہ السلام میں آمدکے حوالے سے کہتا ہے کہ بزرگان،سادات اور حرم امام رضا علیہ السلام کے خادموں نے ازبکوں کے خان کی توجہ مبذول کرنے کے لئے سبز رنگ کا علم اس کے ساتھ عصا اورموتیوں سے جڑی ہوئی ایک تلوار پیش کی اور کہا کہ یہ علم اور تلوار امام رضا علیہ السلام کی ہے ۔اسی طرح دسویں صدی ہجری قمری سے متعلق ایک قلمی نسخے میں آستان قدس رضوی کے نشان یا پرچم کی پینٹنگ ملتی ہے۔
انہوں نے مزید اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انقلاب اسلامی کے بعد ’لا الہ الا اللہ‘‘ کی عبارت کو گنبد اور مینار کی صورت میں آستان قدس رضوی کے نشان کے طور پر پرچم کے وسط میں ڈیزائن کیا گیااور پرچم کے چاروں اطراف میں حضرت رضا(ع) کا مبارک نام زرد رنگ میں سلائی کے ساتھ بار بار دہرایا گیا ہے ۔
اس محقق نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہی پرچم جو آستان قدس رضوی کے اداروں میں بھی استعمال ہوتا ہے،ایّام سوگ کے علاوہ ہمیشہ حرم امام رضا علیہ السلام کے سنہری گنبد پر لہراتا رہتا ہے اور عزاداری یا آئمہ معصومین علیہم السلام کی شہادتوں کے ایّام میں اس سبز رنگ کے پرچم کی جگہ مخمل سے بنا سیاہ رنگ کا پرچم نصب کیا جاتا ہے اس پرچم کے وسط میں اسی طرح کا ایک نشان ہوتا ہے اور اس کے چاروں اطراف میں ہلکے سبز رنگ سے گل دوزی کی گئی ہوتی ہے۔
جناب انفرادی نے بتایا کہ اس رسم کے مطابق یہ سیاہ پرچم ایّام سوگ میں شیعہ کلینڈر کی بنیاد پر گنبد مطہر کے اوپر نصب کیا جاتا ہے مثال کے طور پر محرم و صفر کے ایّام میں شبِ اوّل محرم سے لے کر ماہ صفر سمیت ربیع الاوّل کی تین تاریخ تک یہ پرچم حرم امام رضا(ع) کے سنہری گنبد پر رہتا ہے اور پھر اس کواتار کر دوبارہ سے سبز پرچم نصب کردیا جاتا ہے البتہ آٹھ ربیع الاوّل جو کہ حضرت امام حسن عسکری(ع) کا یوم شہادت ہے اس مناسبت سے دوبارہ سیاہ پرچم نصب کیا جاتا ہے لیکن اس بار کیوں کہ بارہویں امام کی امامت کابھی آغاز ہے اس لئے چوبیس گھنٹے سے کم سیاہ پرچم کو سنہری گنبد پر نصب کیا جاتا ہے ۔
گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حرم امام رضا علیہ السلام کے نواب،شیرازی اورطبرسی کی جانب سے تینوں داخلی دروازوں پر آٹھ پرچم نصب کئے گئے ہیں جو کہ اس پرچم کی شبیہ ہیں جو گنبد مطہر پر نصب کیا گیا ہے اور ان پرچموں سے یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ امام رضا(ع)شیعوں کے آٹھویں امام ہیں ، ان پرچموں کو بھی ایّام عزاء اور ایّام سوگ میں تبدیل کر کے سیاہ پرچم نصب کر دیا جاتا ہے ،پرچموں کی تیاری اور تبدیل کرنے کی ذمہ داری حرم امام رضا علیہ السلام کے ادارہ انتظامات پر ہے ۔
خطبہ خوانی کی روایتی تقریب
انہوں نے حرم امام رضا علیہ السلام میں خطبہ خوانی کی روایتی تقریب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ تقریب ہر سال حضرت امام حسین(ع) اور حضرت امام رضا (ع) کی شب شہادت میں نماز مغربین کے بعد صحن انقلاب اسلامی میں خاص آداب و رسوم کے ساتھ منعقد کی جاتی ہے ،خطبہ خوانی کی روایتی تقریب کے وقت صحن انقلاب اسلامی کے مشرقی حصے میں حرم امام رضا(ع) کے خدّام،سرکاری حکام اور آستان قدس رضوی کے صاحبان مناصب ہوتے ہیں اور صحن انقلاب کے مغربی حصے میں زائرین و مجاورین کھڑےہوتے ہیں۔
جناب انفرادی نے مزید اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خطبہ خوانی کی جگہ کو پھولوں،شمع دانوں،کپڑوں اور سیاہ کتیبوں سے خوبصورت انداز میں سجایا جاتا ہے ،کچھ خادم ہاتھوں میں روشن شمعیں لئے اسٹیج کے سامنے اور اس جگہ جہاں پر حرم امام رضا علیہ السلام کا متولی اور ان کے معزز مہمان ہیں کھڑے رہتے ہیں۔
خطبہ خوانی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے کیا جاتا ہے ،خطبہ پڑھنے والا شخص ایک مشہور مداح خوان ہوتا ہے جو بلند آواز میں خطبہ پڑھتا ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ خطبہ پڑھنے کے بعد مصائب اور مرثیے پڑھے جاتے ہیں جس کے بعد دروازے پر کھڑے خادموں کے سربراہ چودہ سید خادموں کے ہمراہ جو گلے میں سبز رنگ کی شال پہنے ہوتے ہیں دو صفوں کی صورت میں چلتے ہیں اور ان کے پیچھے آستان قدس رضوی کے محافظ،خادمین،مہمانان اور عزادار چلتے ہیں اور صحن انقلاب اسلامی میں کفشداری نمبر چار سے ہوتے ہوئے دوبارہ اپنی جگہ پر واپس آجاتے ہیں اور تقریب کے اختتام پر حرم امام رضا علیہ السلام کا متولی تمام خادمین اور روایتی تقریب میں موجود افراد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کے سامنے سے گزرتے ہیں۔
شب شہادت امام رضا(ع) اور شب عاشورامیں منعقد کی جانے والی خطبہ خوانی کی تقریب تقریباً ایک جیسی ہے اور حتی خطبے کا متن اور مواد بھی ایک جیسا ہے فقط اس خاص مناسبت سے اسی امام کی صفات اور فضائل بیان کئے جاتے ہیں، خطبوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کو بھی یاد کیا جاتا ہے ۔
مصائب پڑھنے کی رسم
اس محقق نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ آستان قدس رضوی یعنی حرم امام رضا علیہ السلام میں مصائب پڑھنے کی تاریخ ،صفوی دور حکومت سے شروع ہوئی اور اس سلسلے میں سب سے قدیمی ترین دستاویز1025 ھ۔ق سے متعلق ہے جس میں مصائب خوان محمد حسین کو ایّام عاشورا میں مصائب پڑھنے پر پیسوں کی ادائیگی کا ذکرکیا گیا ہے ۔
گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حرم امام رضا علیہ السلام میں مجالس اور مصائب خوانی کا انعقاد تین طرح یعنی نذر و منت،وقف اورحرم کی طرف سے کیا جاتا ہے ۔
نذر و منت والی مجلس یا مصائب خوانی میں وہ افراد جوحرم میں زیارت پڑھتے ہیں زائرین کی درخواست پر مصائب خوانی بھی کرتے ہیں اور حرم کی طرف سے جو مصائب خوانی ہوتی ہے وہ گذشتہ ادوار سے چلی آرہی ہے اور صفویوں اور افشاریوں کے دورِحکومت میں حرم امام رضا(ع) کے مصائب خوان کو انعام دینے کا ذکر کیا گیا ہے ۔
جناب انفرادی نے بتایا کہ قاجاریوں کے دورِحکومت کی دستاویزات میں واضح طور پر محرم و صفر کے ایّام میں عزاداری اور مصائب خوانی کا ذکر ہوا ہے ، انقلاب اسلامی کے بعد سے حرم امام رضا علیہ السلام کے ادارہ تبلیغات اسلامی کی نگرانی میں مصائب خوانی اور زیارت خوانی انجام دی جاتی ہے اور اسی طرح مصائب خوانوں کی تربیت کی ذمہ داری بھی اسی ادارہ پر ہے ،اور اس کے علاوہ حرم امام رضا علیہ السلام میں مجالس و محافل اورمرثیہ و مصائب خوانی وغیرہ کا انعقادبھی حرم امام رضا علیہ السلام کےا دارہ تبلیغات کی سرپرستی میں کیا جاتا ہے ۔
حرم امام رضا(ع) میں شام غریباں کا انعقاد
جناب انفرادی نے حرم امام رضا علیہ السلام کی ایک اور رسم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حرم امام رضا علیہ السلام میں امام رضا(ع) اور امام حسین(ع) کی شام غریباں کا انعقاد حرم مطہررضوی کے خادموں کے توسط سے کیا جاتا ہے ،ایرانی عوام بھی ہر سال عاشورا کا سورج غروب ہونے کے بعد مسجدوں، امام بارگاہوں،سڑکوں اور دیگر مختلف جگہوں پر لائیٹس بند کر دیتی ہے اور ہاتھوں میں جلتی موم بتیاں / روشن شمعیں لئے نوحہ پڑھتے ہوئے اہلبیت علیہم السلام کی اسارت کو یاد کرتے ہیں اوراس طرح حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ شام غریباں کے یہ مراسم امام رضا(ع) اور امام حسین(ع) کی شہادت پر منعقد کئے جاتے ہیں،یہ مراسم 1960 عیسوی میں پہلی بار شروع کئے گئے اگرچہ اس سلسلے میں کوئی خاص دستاویزات نہیں پائی جاتی فقط 1961 میں چھپنے والے نوای خراسان نیوز پیپر میں تحریر ہے کہ دوسری بار امام رضا(ع) کی شام غریباں کے مراسم منعقد کئے گئے ہیں۔
جناب انفرادی نے شام غریباں کے مراسم منعقد کرنے کے طریقے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس روایتی مراسم میں آستان قدس رضوی کے محافظ اپنے ہاتھوں میں چاندی کے عصا لئے اور حرم رضوی کے دربان ہاتھوں میں سیاہ رنگ کے عصا لئے اور قالین بچھانے والے ہاتھوں میں چراغ لئے عزاداروں کے آگے حرکت کرتے ہیں اور مرثیہ خوان امام رضا(ع) کے مصائب پڑھتے ہیں ۔
1966 عیسوی کی رپورٹ کے مطابق کچھ اس طرح تحریر ہے کہ چند سالوں سے امام رضا علیہ السلام کے چاہنے والے اور خدمتگزار؛ شب اوّل ربیع الاوّل میں امام رضا(ع) کی شام غریباں کے مراسم کا انعقاد کرتے ہیں، انقلاب اسلامی کے بعد باقاعدہ طور پر امام رضا(ع) کی شام غریباں کے مراسم کو حرم امام رضا علیہ السلام کے دیگر مراسم میں شامل کیاگیا۔
ان دو آئمہ معصومین علیہم السلام کی شام غریباں کی رات میں آستان قدس رضوی کے تمام خادمین بشمول قالین بچھانے والے، دربان،کفشدار،محافظ اور دیگر خادم آستان قدس رضوی کے مرکزی ادارہ(دارالتولیہ) پر جوکہ شہداء چوک پر واقع ہے اکھٹے ہوتے ہیں،نماز مغربین با جماعت ادا کرنے کے بعد تمام خادمین لائنوں کی صورت میں چلتے ہیں اور ان کے آگے آگے حرم رضوی کےد ربان جلتی شمعیں ہاتھوں میں لئے حرکت کرتے ہیں اور اسی انداز میں حرم امام رضا علیہ السلام میں مشرف ہوتے ہیں۔
انہوں نے شام غریباں میں عوامی سطح پر منعقد کئے جانے والے مراسم کو علیحدہ سے خاص مراسم قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ مراسم جو عوامی شرکت سے منعقد کئے جاتے ہیں اس میں ہر سال یا حرم امام رضا علیہ السلام کا متولی یا نائب متولی اور چند ایک صوبائی حکام خصوصی شرکت فرماتےہیں۔
حرم امام رضا علیہ السلام کے صحن کی لائٹس بند ہوتی ہیں خادمین ہاتھوں میں جلتی شمعیں لئے صحن میں داخل ہوتے ہیں اور اپنی اپنی مخصوص جگہوں پر جا کر کھڑے ہوجاتے ہیں ، مراسم کا آغاز مصائب پڑھنے سے شروع ہوتا ہے اور مرثیہ خوانی پر اختتام پذیر ہو تے ہیں ، ابتدا میں یہ مراسم صحن میوزیم میں منعقد کئے جاتے تھے اور اس صحن کو رواق(ہال) میں تبدیل کرنے کے بعدکچھ عرصہ تک صحن جمہوری میں منعقد کئے گئے اور اب صحن انقلاب اسلامی میں معنقد کئے جاتے ہیں۔
شمعیں جلانے کی رسم
آستان قدس رضوی کی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے شعبہ رضوی سیرت و ثقافت کے ڈائریکٹر نے ماہ محرم اورشہادت امام حسین اور شہادت امام رضا علیہ السلام کے موقع پر شمعیں جلانے کی رسم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مظفر الدین شاہ کے دورحکومت سے پہلے تک حرم امام رضا علیہ السلام میں نذر ومنت ادا کرنے یا عہد و پیمان پورا کرنے یا امام رضا علیہ السلام کی بارگاہ اقدس میں عقیدت و محبت کا اظہار کرنے کی نیت سے شمعیں جلانے کی رسم تھی۔
1939 عیسوی تک زائرین و مجاورین جب حرم امام رضا علیہ السلام کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوتے تو شمعیں جلایا کرتے تھے اور باقاعدہ یہ ایک رسم تھی، لیکن 1939 کے بعد اگرچہ حرم امام رضا(ع) میں برقی لائیٹس آگئیں لیکن اس کے بعد بھی شمعیں جلانے کی یہ رسم مکمل طور پر ختم نہ ہوئی ،کیونکہ ابھی تک عوام میں شمع جلانے کے لئے نذر و منت مانی جاتی اور شمع جلانے کے وسائل وغیرہ وقف کئے جاتے تھے اور یہ رسم ابھی تک ان میں رائج تھی۔
انہوں نے بتایا کہ حرم امام رضا علیہ السلام میں شمعیں جلانے کی آخری نشانیاں لوہے کے بنے وہ شمعدان تھے جو صحن انقلاب اسلامی کی کفشداری کے ساتھ رکھے جاتے تھے اور آستان قدس رضوی ان شمعدانوں کو موم بتیاں اور شمع بیچنے والوں کو کرائے پر دیا کرتا تھا۔
حرم امام رضا(ع) کی مختلف جگہوں اور حتی ضریح مطہر امام رضا(ع) کے ساتھ شمعیں / موم بتیاں جلانے کی وجہ سے دھواں اور اس کی بوپھیلتی تھی اس کے علاوہ چند ایک حادثے بھی ان کو جلانے سے ہوئے تھے اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ شمع جلانے کے لئے حرم میں خاص جگہ معین کی جائے لیکن زائرین کی کثرت اور جگہ کی محدودیت کی وجہ سے زائرین حرم کی مختلف جگہوں پر شمعیں روشن کیا کرتے تھے۔
جناب انفرادی نے کہا کہ سنگاب خوارزمشاھی(خوارزمشاھی نامی پتھر سے بنا پانی کا بہت بڑا برتن)کے کناروں پر موم بتیاں جلانے کی وجہ سے جو کہ دارالسیادہ کے ساتھ رکھا گیاتھا اس پر بنے نقش و نگار کم رنگ اور محو ہونا شروع ہو گئے ، ان تمام باتوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے آخر کار1976 عیسوی میں متولی اور نائب متولی کے حکم پر صفائی کو برقرار رکھنے اور حرم کو آگ لگنے سے بچانے کے مقصد سے حرم امام رضا علیہ السلام کی تمام جگہوں پر شمعیں روشن کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شمع روشن کرنے کی رسم آستان قدس رضوی کی تمام رسومات میں نماد اور علامت کے طور پر جانی جاتی ہے یہاں تک کہ 1915 عیسوی میں جب خادمین امام رضا(ع) کی شام غریباں کے مراسم کے لئے تیل سے جلنے والے چراغ سے استفادہ کرنا چاہتے تھے تو اس وقت حرم کے متولی ظہیر الاسلام نے حکم دیا کہ سارے خادموں کے لئے شمعیں فراہم کی جائیں ، اور اب امام رضا(ع) اور امام حسین علیہ السلام کی شام غریباں کے مراسم اور مراسم صفہ ہاتھوں میں جلتی شمعیں لے کر منعقدکئے جاتے ہیں اور زائرین و مجاورین بھی اسی انداز میں ان کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔
آستان قدس رضوی کی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کےمقدس مزارات پر سماجی مطالعہ کرنے والے شعبہ کے سربراہ نے محرم الحرام کی عزاداری کے حوالے سے مشہد مقدس میں خطبہ خوانی سے لے کر شمع روشن کرنے تک کی پانچ رسومات کا تعارف کرایا۔
News Code 4668
آپ کا تبصرہ