آستان نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ آستان قدس رضوی کے کتب خانوں،میوزیمز اور آرکائيو کی آرگنائزیشن کے سربراہ حجت الاسلام سید جلال حسینی نے بتایا کہ ۱۳وی صدی میں محمد علی اردستانی کے توسط سے تحریر کردہ قرآن کریم،نویں صدی میں شیرازی خطاط زین العابدین محمد کے توسط سے تحریر کردہ قرآن کریم، چوتھی صدی میں محمد بن کثیر کے وقف کردہ قرآنی جزوات، بارہویں صدی میں سید محمد جعفر حسینی کے توسط سے تحریر کردہ قرآن کریم کے نسخے،ساتویں صدی کی ابتداء میں یاقوت مستعصمی کی کتابت سے منسوب قرآن کریم اور بارہویں صدی کی ابتداء میں ظہیر الدین محمد بابر کے توسط سے لکھے جانے والے قرآن کریم کو قومی ورثہ اور آثار کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔
انہوں نےصفوی دور میں استاد محمد باقر کے پیتل کے آسٹرولیب(گذشتہ اداوار میں اس کے ذریعہ علم نجوم کے بہت سارے کام جیسے سورج اور ستاروں کا زاویہ ،بلندی اور بہت سارے دیگر کام انجام دیئے جاتے تھے) ،تیرہویں صدی میں محمد باقر خراسانی کے حلقے کی مانند آسٹرولیب،بارہویں صدی کا عبد الائمہ کا قبلہ نما اورساعت خورشیدی،تیموری دور میں دھات سے بنا کینڈل اسٹینڈ، امام رضا(ع) کی ضریح مطہر کے لئے صفوی دور کا سنہری تالا، تیرہویں صدی کی سنہری صراحی جس پر قلم زنی کا کام انجام دیا گیا ہے ، صفوی دور میں ضریح امام رضا(ع) کی چابیاں رکھنے کے لئے فولاد سے بنائے گئے دو کلید دان ، تیرہویں صدی میں بنایا گیا دروازہ، نویں صدی میں دھات اور فولاد سے بنایا گیا گلاب دان،تیرہویں صدی میں بنایا گیا حضرت امام علی رضا (ع) کے پائے مبارک کی جانب نصب دروازہ جس کے دونوں اطراف میں سونے کا کام انجام دیا گیا ہے اور افشاریہ اور قاجاریہ دور کی کلہاڑی جس پر سونے کا پانی چڑھایا گیا ہے وہ جملہ ایسے آثار اور نوادرات ہیں جنہیں قومی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔
حجت الاسلام حسینی نے اس قیمتی مجموعہ کے مزید چند آثار و نوادرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ۱۳۰۷ ہجری شمسی سے متعلق پیتل سے بنی صراحی جس پر قلم سے کام انجام دیا گیا ہے ، بارہویں صدی کی فیض اللہ شوشتری کی دھات اور فولاد سے بنی صراحی، بارہویں صدی سے متعلق پردہ ماھوت جس پر مروارید کے موتیوں اور دھاگے سے کڑھائی کی گئ ہے، تیرہویں صدی کی ابتداء میں بنائی گئی جانماز جس پر کڑھائی اور بنائی کا خوبصورت کام انجام دیا گیا ہے ، صفوی دور سے متعلق قالیچہ جس پر محراب کا نقش ہے ، باغ کے نقش سے مزیّن قالیچہ جو صفوی دور سے متعلق ہے ،امام رضا(ع) کی قبر مطہر پر نصب چوتھی ضریح جو کہ ضریح شیر و شکر کے نام سے معروف ہے ، ۱۲۶۴ یا ہجری شمسی یا ۱۸۸۵ عیسوی دو رسے متعلق فولاد اور دھات پر تحریر کردہ امام رضا علیہ السلام کا زیارت نامہ، تیرہویں صدی کے آخری میں زراندود کا فولاد پر تحریر کیا گیا امام رضا(ع) کا زیارت نامہ، زیارت حضرت رسول اللہ (ص)، ۱۳۰۱ ہجری شمسی میں بنایا گیا منبر، زندیہ دور سے متعلق ایسا جنگی لباس جس پرمختلف حرز اور ورد تحریر کئے گئے ہیں، دسویں صدی کے کاتب اور خطاط میر علی کا مرقع(خطاطی کا بورڈ)اور۸۸۰ ہجری قمری سے متعلق کمال الدین حسین قلی کی قبر کا پتھر بھی رضوی میوزیم کے ان آثار میں شامل ہیں جنہیں قومی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رضوی میوزیم کے آثار کو قومی ورثہ کی فہرست میں شامل کرنے کا سلسلہ ۲۰۱۹ سے شروع ہوا اور’’ زیارت رضوی‘‘ وہ پہلی چیز تھی جسے ایران کے قومی روحانی و معنوی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا گیا۔
قومی ورثہ کی فہرست میں رضوی میوزیم کے ۶۵ آثار قدیمہ شامل ہیں
حجت الاسلام سید جلال حسینی نے بتایا کہ رضوی میوزیم کے پندرہ نوادرات اور آثار۲۰۲۰ میں قومی ورثہ کے طور پر رجسٹرڈ ہوئے اور ۲۰۲۱ میں ۱۷ قیمتی آثار کے ساتھ مختلف میڈلز،نشان،تختی پہلوان کے بازوبند بھی رجسٹرڈ ہوئے ۔ ۱۴۰۱ہجری شمسی میں رضوی میوزیم نے مزید ۳۲ آثار کو قومی ورثہ کی فہرست میں شامل کر کے نیا ریکارڈ بنایا ہے ۔
انہوں نے مزید یہ بتایا کہ حرم امام رضا علیہ السلام میں صفّہ اور خطبہ خوانی کے روایاتی مراسم بھی ان جملہ پروگراموں اور مراسم میں سے ہیں جنہیں ملک کے روحانی و معنوی ورثہ کی فہرست میں درج کروانے کے لئے تمام اقدامات انجام دیئے جا چکے ہیں ۔
اہم الفاظ: آستان قدس رضوی، ،،حرم امام رضا،
آپ کا تبصرہ