آستان نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ فلکی یا نجوم خزانہ آستان قدس رضوی کے میوزیم کے 18خزانوں میں سے ایک ہے جو کہ ایران کا پہلا سائنسی اور ٹیکنالوجی کا میوزیم ہے ،ذیل میں ہفتہ نجوم (28اپریل2025 سے 5مئی) کی مناسبت سے آستان قدس رضوی کے فلکی میوزیم کے سربراہ جناب عبد الحسین ملک جعفریان کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو قارئین کے لئے پیش کیا جارہا ہے ۔
شروع میں آپ آستان قدس رضوی کے میوزیم کے فلکی خزانے کی تاریخ کے تعارف میں کیا کہنا چاہیں گے؟
یہ خزانہ جو کہ تقریباً چار سو مربع میٹرپر مشتمل ہے جسے 29 جون1999 میں حرم امام رضا(ع) کے صحن کوثر میں واقع مرکزی میوزیم کے دوسرے فلور میں تأسیس کیا گیا،فلکیات سے دلچسپی رکھنے والے افراد ہر روز صبح8;45 سے عصرپونے چھ بجے تک وزٹ کر سکتے ہیں اس فلکی خزانے میں 110 قیمتی آثار موجود ہیں۔
فلکی خزانے کے آثار کو اکھٹا کرنے میں کن افراد نے اہم کردار ادا کیا؟
فلکی خزانے کے بہت سارے آثار مرحوم ڈاکٹر سید جلال الدین تہرانی نے اس مقدس آستانے کے لئے وقف کئے تھےاورکچھ باقی آثار ماہر طبیعات اور ایران میں فزکس ہاؤسز کے بانی ڈاکٹر فرہاد رحیمی نے اس مقدس بارگاہ کے لئے وقف کئے تھے۔
ان آثار میں سب سے قدیمی اثر کس زمانے سے متعلق ہے؟
فلکی خزانے کا سب سے قدیمی اثر گول اسٹرلاب ہے جو کہ صفوی دور سے متعلق ہے جسے 1058 ہجری قمری میں استاد ضیاء الدین محمد بن قائم بن ملا عیسی بن ملا الہداد الاسطرلابی ہمایونی لاہوری نے پیتل سے بنایا تھا اورسید جلال الدین تہرانی نے اسے آستان قدس رضوی کے لئے وقف کیا تھا۔
براہ کرم فلکی میوزیم کے چند اہم آثار کا تعارف کرائیں؟
اسٹرلاب کے علاوہ گریگوری ماڈل کی عکاسی کرنے والی ٹیلی اسکوپ بھی قابل ذکر ہے جسے آٹھارہویں صدی کے آخر میں پیرس میں پیتل سے بنایا گیا تھا ،اسی طرح جغرافیائی محل وقوع کا تعین کرنے کے لئے چھوٹی ٹیلی اسکوپس بھی موجود ہیں جس میں ایک شیشہ لگا ہوتا ہے ۔یہ ٹیلی اسکوپس بھی نہایت قیمتی اور منفرد ہیں۔
اس کے علاوہ متعدد جغرافیائی اور آسمانی کروی بالزجو مختلف سیّارات کی چھوٹی شکل ہے جسے سیارات سے آشنائی کے لئے بنایا گیا ہے وہ بھی اس میں موجود ہیں ان میں بعضی ایک سو ستر سال پرانے ہیں جنہیں لکڑی اور گتے سے انگلینڈ میں بنایا گیا ہے ۔
اس کےعلاوہ ایک حصے میں سمندری فلکی آثارپائے جاتے ہیں میں لکڑی سے بنی ایک کشتی بھی موجود ہے۔
گذشتہ سال میں میں کونسے جدید فلکی آثار اس خزانے میں اضافہ ہوئے ہیں؟
آئرلینڈ کے شہر ڈبلن میں ہاورڈ گرب کی 1881 میں بنائی گئی ٹیلی اسکوپ کو اس سال آستان قدس رضوی کے فلکیاتی خزانے میں نمائش کے لئے رکھا گیا ہے یہ فلکی واقعات کی تصویر کشی کے لئے بنائی گئی تھی اورآپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ 6 جنوری1961 میں تہران شہر میں اس ٹیلی اسکوپ کے ذریعہ جزوی طور پر لگنے والے سورج گرہن کو دیکھا گیا تھا۔
رضوی میوزیم کے زائرین فلکی خزانے کے آثار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ماضی سے حال تک کی چند دہائیوں میں صنعتی میدان میں بہت زیادہ تبدیلیاں آئی ہیں ،اس خزانے کے ذریعہ ان صنعتی تبدیلیوں کو ہم جان سکتے ہیں ،تمام زائرین خصوصاً نوجوان نسل اور اسکول کے طلباء کے لئے یہ تمام آثار نہایت دلچسپ ہیں ۔

مختلف قسم کی ٹیلی اسکوپس،اسٹرلاب اورکمپاسز(قطب نما) سے لے کر سینکڑوں جغرافیائی اور آسمانی گول بالز اور مختلف کیمرے وغیرہ یہ سب علم وآرٹ سے دلچسپی رکھنے والے مخیر حضرات کے تعاون سے حرم رضوی کے فلکی اور نجومی میوزیم کے خزانے میں موجود ہیں ، یہ آثار اور تحائف زیادہ تر واقفین کے توسط سے اس خزانے میں موجود ہیں اور نوجوان نسل کو قدیم فلکیات یا ستاروں اور آسمان کے علوم سے ان کے ذریعہ روشناس کرایا جا رہا ہے ۔
News Code 6271
آپ کا تبصرہ