صہیونیوں کے جرائم درحقیقت عاشورہ میں بنی امیہ کے توہمات و تخیلات کا اعادہ ہیں

آستان قدس رضوی نے اس بیان کے ساتھ کہ ظلم کبھی بھی پائیدار نہیں رہتا اور حق کی فتح ناگزیر ہے ،صیہونی حکومت اور بنی امیہ کے جرائم میں مماثلت کو بیان کیا اور کہا کہ صیہونی ،غزہ کی مظلوم عوام کا قتلِ عام کر کے یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ مزاحمت کو ختم کردیں گے حالانکہ وہ اس حققیت سے غافل ہیں کہ حق کو ختم نہیں کیا جا سکتا؛ بلکل اسی طرح جیسے بنو امیہ نے یہ تصورکیا تھا کہ امام حسین(ع) کی شہادت سے اسلام کا خاتمہ ہو جائے گا۔

آستان نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ آیت اللہ احمد مروی نے ایران میں زیرِتعلیم لبنانی طلباء کے ایک اجتماع سے جو حرم امام رضا علیہ السلام کے قدس ہال میں منعقد ہوا، صیہونی حکومت کے جرائم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی حکومت اب بھی قتل و غارت اور جرائم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے؛لیکن نہ لبنان میں اور نہ ہی غزہ میں وہ اپنے کسی بھی مقصد میں کامیاب نہیں ہوئی۔
 انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ غزہ پر قبضہ کرے گا، قیدیوں کو آزاد کرائے گا اور حماس تحریک کو ختم کر دے گا،لیکن کیا وہ ایک بھی قیدی کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوئے؟غزہ کی وسعت کتنی ہے؟ایک محدود آبادی والا تنگ علاقہ،انہوں نے غزہ کے تقریباً پچاس ہزار مظلوم لوگوں کو خاک و خون میں نہلا دیا،لیکن پھر بھی ایک قیدی کو آزاد کرانے کی حسرت ان کے ناپک دلوں میں باقی رہے گی، کیاحماس ختم ہوگئی؟تباہ ہوگئی؟

آیت الله مروی جنایات صهیونیست‌ها را تکرار توهمات بنی‌امیه در عاشورا دانست و گفت: مگر در تاریخ اسلام فاجعه‌ای سهمگین‌تر از روز عاشورا داریم؟ آیا حادثه‌ای وحشتناک‌تر، غم‌انگیزتر و تلخ‌تر از شهادت امام حسین(ع)، حجت خدا و فرزند پیامبر(ص) وجود دارد؟ بنی‌امیه می‌پنداشت با این جنایت، پرونده اسلام بسته خواهد شد، اما برعکس، اسلام گسترده‌تر شد و به جغرافیای تمام جهان گسترش یافت؛ جنایات صهیونیست‌ها نیز به تقویت جبهه مقاومت در فلسطین و سایر نقاط جهان منجر خواهد شد.
 آیت اللہ مروی نے صیہونیوں کے جرائم کو عاشورا کے دن بنی امیہ کے توہمات کاتکرار قرار دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ اسلام میں یوم عاشورا سے زیادہ کوئی سنگین فاجعہ ہے ؟ یا امام حسین علیہ السلام، حجت خدا اور فرزند رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت سے زیادہ کوئی خوفناک، غم انگیز اور تلخ واقعہ ہے؟ بنی امیہ کا خیال تھا کہ اس جرم سے اسلام کا باب بند ہو جائے گا، لیکن اس کے برعکس، اسلام مزید پھیلا اور دنیا کے تمام خطوں میں پھیل گیا؛ صیہونیوں کے جرائم بھی فلسطین اور دنیا کے دیگر حصوں میں محاذِ مقاومت کو مضبوط کرنے کا باعث بنیں گے۔
صیہونی حکومت کا کھلا تضاد
آستان قدس رضوی کے متولی نے مزید یہ کہا کہ حزب اللہ نے مزاحمت کے راستے میں بہت زیادہ قیمت چکائی ہے اور نقصانات اٹھائے ہیں لیکن جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ قیمتی ہے ،مزاحمت پہلے سے مضبوط ہو چکی ہے پائیدار ہے ،صیہونی حکومت نے لبنان پر حملہ کرتے وقت فتح کا اعلان کیا اور پھر جنگ بندی کی تجویز پیش کی، اگر مزاحمت تباہ ہو گئی تھی تو صیہونی حکومت جنگ بندی کی درخواست کیوں کر رہی ہے؟ جنگ بندی اس وقت کی جاتی ہے جب ایک فریق اپنے حریف کو تباہ کرنے میں ناکام رہے ، لیکن اگر ایک فریق یہ کہہے کہ اس نے حریف کو ختم کر دیا ہے تو جنگ بند کا کوئی معنی نہیں ہے  ۔
انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت واضح تضاد کا شکار ہے ایک طرف وہ کہتی ہے کہ مزاحمت تباہ ہو گئی ہے لیکن دوسری طرف جنگ بندی کی درخواست کرتی ہے ،یہ بذات خود ایک کھلا تضاد ہے ، مزاحمت زندہ اور متحرک ہے ،اگرچہ اسے نقصانات پہنچے ہیں لیکن اس میں مزید استحکام آیا ہے اور ان شاء اللہ اس میں مزید توسیع ہوگی۔
آیت اللہ مروی نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے شہید سید حسن نصراللہ کو خراج عقیدت پیش کیا اور اس سیدِ مزاحمت کو دنیا کے تمام حریت پسندوں کے لئے آزادی، انصاف اور حقیقت کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ سید حسن نصر اللہ نہ صرف لبنان کے شیعوں اور مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ وہ تمام آزاد اور حریت پسند افراد کے علامت اور نمونہ ہیں جو آزادی، انصاف اور حقیقت کی تلاش میں ہیں۔
انہوں نے مزید یہ کہا کہ مزاحمت کی تحریک عوام کے ایمان سے جڑی ہوئی ہے ، صیہونی دشمن سمجھتا ہے کہ سید حسن نصر اللہ، سید ہاشم صفی الدین اور مزاحمت کے دیگر راہنماؤں کو شہید کر کے وہ مزاحمت کو ختم کر سکتا ہے لیکن مزاحمت ایک ایسا نظریہ ہے جس کی جڑیں عوام کے ایمان میں ہیں اور کسی بمباری سے اسے ختم نہیں کیا جا سکتا،مجرم صیہونی حکومت ایک فرعونی غلطی اور وہم میں مبتلا ہے جو یہ سوچتی ہے کہ وہ ایک ایسی فکر کو بموں سے تباہ کر سکتی ہے وہ فکر جو قرآن، اسلام،مکتب اہلبیت(ع) اور عوام کے ایمان سے پھوٹتی ہے ۔
شہید سید حسن نصر اللہ کے شخصیتی پہلوؤ
آستان قدس رضوی کے متولی نے شہید سید حسن نصر اللہ کی پانچ اہم خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پہلی خصوصیت اللہ کے وعدوں پر مضبوط ایمان جسے گذشتہ چار دہائیوں میں حزب اللہ کے رہبر نے اپنے عمل سے ثابت کیا اورکبھی بھی شک و تردید کا شکار نہیں ہوئے ۔
انہوں نے مزید یہ بتایا کہ دوسری خصوصیت عوام سے محبت تھی ، انہوں نے ہمیشہ لبنان کی سرزمین کی حفاظت کی اور تمام لبنانی عوام کے دلوں میں خاص مقام رکھتے تھے ،اسلام ناب کی پیروی اور حضرت امام خمینی(رہ) کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ان کی اہم خصوصیات تھیں۔
آیت اللہ مروی نے صداقت و شجاعت کو اس شہیدِ مزاحمت کی دیگر خصوصیات جانتے ہوئے کہا کہ سید حسن نصر اللہ لبنانی عوام کے ساتھ سخت ترین حالات میں بھی کھڑا رہا اورسیاسی بازیوں سے ہمیشہ اجتناب کیا۔
اس کے علاوہ ان کا عمل اور گفتار تدبیر و خردمندی پر مشتمل تھا ، یہ خصوصیات فقط شہید نصر اللہ کی عظمت کے چند پہلوؤ ہیں شہید کو فقط ان خصوصیات میں منحصر نہیں کیا جا سکتا ۔

News Code 6250

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha