شیعہ نہ ظلم کرتا ہے نہ ظلم سہتا ہے

کانگو سے تعلق رکھنے والے مبلغ اور عالم دین کا کہنا ہے کہ شیعہ نہ ظلم کرتا ہے اور نہ ظلم کے سامنے جھکتا ہے کانگو کے عالم دین نے کہا کہ حضرت امام حسین(ع) اور آپ کے باوفا اصحاب نے جس طرح سے ظلم کے خلاف قیام کیا انہیں مظلومیت کی علامت کے طور جاننا چاہئے ۔

عتبہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ کانگو سے تعلق رکھنے والے جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ (المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی

) کے اسکالر ،   مبلغ اور عالم   ثابتی انگوی نے عالمی کونسل حضرت علی اصغر(ع) کے اجلاس کے دوران خطاب  کرتے ہوئے کہا کہ میں المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی کا طالب علم ہوں اور سات سال سے ہیومن سائنس کے مضمون  میں    ڈاکٹریٹ کر رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اس اجلاس کے انعقاد کا مقصد شیعہ کی حقانیت اور عاشورہ کے واقعہ کو متعارف کرانا ہے، آستان قدس رضوی کی انتظامیہ اور سربراہان کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس اجلاس کو حرم امام رضا علیہ السلام میں منعقد کروایا۔

 اس قول کے ساتھ کہ  شیعہ ظلم کے خلاف ڈٹ جاتا ہے   انہوں نے کہا کہ اس اجلاس کے ذریعہ پوری دنیا میں پہلا پیغام جو دیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ظلم بری چیزی ہے اور دوسرے نمبر پر اس اجلاس کے ذریعہ شیعوں کی حقانیت کو ثابت کیا گیا ہے کیونکہ شیعہ چھوٹے سے چھوٹا ظلم بھی انجام نہیں دیتا اور ہمیشہ ظلم کے خلاف ڈٹ جاتا ہے  اور تیسرے نمبر پر ایک یاد دہانی ہے کہ بچوں کا چہرہ معصوم اور مظلوم دکھائی دیتا ہے اور جب کوئی بھی آزاد انسان کسی بچے پر ظلم ہوتے دیکھتا ہے تو اس  کا  دل غم سے بھر جاتا ہے ۔

کانگو کے اسلامک اسکالر اور مبلغ  ثابتی انگوی کا مزید   کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے پروگرام کے ذریعہ بغیر کسی خطیب و منبر کے پیغام دیا جا سکتا ہے

کانگو سے تعلق رکھنے والے اس مبلغ   نے کہا کہ حضرت امام حسین (ع) اور آپ کے باوفا اصحاب کو  جنہوں نے ظلم کے خلاف قیام کیا انہیں مظلومیت کی علامت کے طور پہچانا جانا چاہئے اور اس طرح کے اجلاس کے ذریعہ جہاں اہلبیت کا تعارف کروایا جا سکتا ہے وہیں پر قوموں کو بیدار کرنا بھی ممکن ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پربہت زیادہ کام انجام دیا جا رہا ہے لیکن ہمیں مزید کوشش کرنا ہوگی کیونکہ آج ہمارا مقابلہ دنیا کی نام نہاد سپرپاور امریکہ اورہالیوڈ جیسے میڈیا سے ہے جو تمام مسائل کو الٹا دکھاتے ہیں ، اس لئے شیعیت کی زیادہ سے زیادہ تبلیغ و ترویج کی ضرورت ہے ۔

کانگو کے دینی اسکالر نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ہمیں میڈیا  کے میدان میں پختہ کام کرنا ہوگا اور ایسا مدلل اور منطقی مواد میڈیا پر لایا نا ہو گا  جو انسانی فطرت کے مطابق ہو کیونکہ اگر انسان کے دل تک جب اس طرح کا مواد  اور پیغام پہنچے گا تو وہ یقینا اسے قبول کرے گا۔

جناب ثابتی انگوی نے کہا کہ اس سلسلے میں اچھی کاوشیں کی گئی ہیں لیکن پھر بھی ہمیں ایسے دشمن سے جو ہمیشہ غلط ثقافت کو ترویج دیتا ہے غافل نہیں ہونا چاہئے ، دشمن اینٹرنیٹ کے ذریعہ اپنی ثقافت کو ترویج دے رہا ہے ؛ہمیں بھی اس کے مقابلے میں اس طرح کے کام انجام دینا چاہئيں   کہ جن سے دشمن  کو حرف غلط ثابت کردیا جائے    

ان کا   کہنا تھا کہ انسان ہمیشہ سے روحانیت کی تلاش میں رہا وہیں پر بعض افراد روحانیت کو یوگا جیسی ورزش میں تلاش کر رہے ہیں اور بعض دوسری جگہوں پر روحانیت کی تلاش میں ہیں، لیکن یہ یاد رہے کہ روحانیت فقط اسلام اور وہ بھی شیعت میں مل سکتی ہے ۔ کیونکہ شیعیت؛ عقل و فطرت کے عین مطابق ہے۔

کانگو کے اسکالر  ثابتی نے اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ شیعیت عقل و فطرت کے مطابق ہے کہا کہ اگر ہم اس کا صحیح اظہار کر سکیں تو لوگ ضرور متوجہ ہوں گے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر معاشرہ ہماری اچھائیوں کو سن لے تو یقینا ہماری پیروی کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ اہلبیت(ع) کی اچھائیوں اور ان کے کلام کی خوبصورتی اور جاذبیت  کو معاشرے تک منتقل کیا جائے اور دوسرے نمبر پر عملی نقطہ نظر سے جو کہ تبلیغ دین کا بہترین ذریعہ ہے ؛ شیعیوں کی آواز کو دنیا تک پہنچایا جائے ۔

مذکورہ  دینی اسکالر نے کہا کہ اہلبیت علیہم السلام فرماتے ہیں کہ شیعہ کیونکہ ہم سے منسوب ہیں اس لئے انہیں اچھا برتاؤ کرنا چاہئے اور ایسا عمل نہیں کرنا چاہئے جس سے معاشرے میں یہ خیال پیدا ہو کہ شیعہ خطا کار ہے اور اس کا عمل اس کی گفتار کے مطابق نہیں ہے ۔

انہوں نے اہلبیت علیہم السلام کے مقام و منزلت  کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شروع میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آئمہ اطہار علیہم السلام کا تعارف نہایت آسان کام ہے لیکن غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ ایک آج کا انسان  نامکمل انسان ہونے کے  طور پر  کیسے ایک کامل انسان کا تعارف کروا سکتا ہے ؟

جناب ثابتی انگوی نے اس  بات کا  ذکر کرتے ہوئے کہ آئمہ معصومین (ع) روحانیت اور اخلاق کا آئیڈیل اور نمونہ ہیں ؛ کہا کہ آئمہ اطہار(ع) علم کے معدن ہیں اور اگر ہم اہلبیت(ع) کو علم کی علامت کے طور پر متعارف کروا سکیں تو یہ بہت زیادہ مؤثر ثابت ہو گا کیونکہ ہر انسان علم کی تلاش میں ہے ۔

انہوں نے کہا آئمہ معصومین(ع)علم و اخلاق اور انسانیت کی مثال اور نمونہ ہیں  

ان کا  کہنا تھا کہ  انسان ہمیشہ سے نمونہ اور آئیڈئیل کی تلاش میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ  بدقسمتی سے آج وہ فٹ بال کے کھلاڑیوں جیسا بننا چاہتا ہے ۔ جبکہ  اہلبیت اطہار(ع) انسان کامل کا نمونہ ہیں اور اگر ہم ایسے انسان کو آئیڈئیل اور نمونہ مان لیں جو ہر لحاظ سے برتر اور بے مثال ہے تو معاشرہ بھی اس کی پیروی کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ایک عیسائی دانشور اپنی کتاب ’’ امام علی ؛صدائے عدالت‘‘ میں لکھتا ہے کہ وہ حضرت علی(ع) کو مجسم عدالت سمجھتا ہے اگرچہ وہ مسلمان نہیں ہے ۔ لیکن کیوں وہ ایسی کتاب لکھتا ہے ؟ کیونکہ وہ حضرت علی علیہ السلام کی عظمت کو جان چکا ہے اور اس بات کی طرف متوجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی عدالت پوری انسانیت کے لئے  ہے  خواہ   وہ شیعہ ہو یا غیر شیعہ حتی غیرمسلم کے لئے  بھی  عدالت علوی ایک جیسی ہے ۔

News Code 443

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha