عتبہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛جناب کمال الدین علی بن میر احمد محتشم کاشانی جو کہ دسویں صدی ہجری اور صفوی دورحکومت کے فارسی زبان شعراء میں سے ایک ہیں ۔
وہ ہر قسم کے اشعار کہنے میں مہارت رکھتے تھے لیکن ان کی سب سے مشہور تصنیف وہ ہے جس میں واقعہ کربلا کی تفصیل خاص ترکیب سے تحریر کی گئی ہے ۔
آستان قدس رضوی کی مرکزی لائبریری کے مخطوطات سیکشن میں ادب کے موضوع پر ۸۲۰۰ مخطوطات موجود ہیں جن میں سے ۴۲ فن پاروں کا تعلق جناب محتشم کاشانی کے مخطوطات سے ہے ،دیوان،رباعیات،بارہ بند،نظمیں،جنگ سے متعلق اشعار،بیاض،جلالیہ اور مثنوی شعر جملہ اس شاعر کی تخلیقات میں سے ہیں جنہیں اس مرکز میں رکھا گیا ہے ۔
اس کتب خانہ میں محتشم کاشانی کی سب سے پرانی تصنیف وہ دیوان ہے جس میں نظمیں، قصیدے، غزلیں، رباعیات، قطعات، مثنویات شامل ہیں۔
یہ دیوان ہدایت اللہ بن شکراللہ ایموری نے سنہ۱۰۷۵ ہجری میں ۱۶ سطروں کی صورت میں ۶۸ صفحات پر نستعلیق رسم الخط میں تحریر کیا،کتابت کے لحاظ سے ایران کا دوسرا مخطوطہ اثر سمجھا جاتا ہے ، اس کے پہلے صفحہ کو مستطیل کتبہ کی صورت میں مختلف رنگوں سے مزیّن کیا گیا ہے ۔
ایران کا سب سے بڑا مرثیہ سرا
فردوسی یونیورسٹی کے شعبہ فارسی زبان و ادب کی ایسوسی ایٹ پروفیسر محترمہ ڈاکٹر زہرا اختیاری نے آستان قدس رضوی کے مرکزی کتب خانہ کے کانفرنس ہال میں ہونے والے اجلاس کے دوران اس شاعر کو شاعر وحشی بافقی،ضمیری اصفہانی اور حیرتی تونی کا ہم عصر شاعر قراردیا اور کہا کہ اس کا ان دیگر شعراء کے ساتھ دوستی کے ساتھ ساتھ مشاعرہ ہوا کرتا تھا۔
محترمہ اختیاری نے محتشم کاشانی کی جوانی کے ایّام کو شاہ طہماسب صفوی کے دور حکومت میں قراردیتے ہوئے کہا کہ اس شاعر کی خوبصورت غزلوں اور قصیدوں کی وجہ سے بادشاہ اسےبہت زیادہ عزت دیتا تھا۔
انہوں نے محتشم کو ایک اہم ترین شیعہ شاعر جانتے ہوئے کہا کہ آپ ہر قسم کی مصنوعیت سے دور ہو کر صریح اور سادہ زبان میں اشعار کہتے تھے۔
محترمہ اختیاری نے فارسی ادب میں واقعہ کربلا کے حوالے سے محتشم کاشانی کے مرثیہ کو مشہور ترین قرار دیتے ہوئے کہا کہ بہت سارےفارسی ادب کے شعراء نے اس عظیم شاعر کی مرثیہ اور دیگر اشعار کہنے میں تقلید کی ہے ۔
آپ کا تبصرہ