عتبہ نیوز کی رپورٹ کےمطابق؛ حاجی داؤد کا تعلق ہندوستان کے شہر ممبئی کے ایک شیعہ گھرانہ سے تھا
۹۳ سال قبل اپنے خاندان کے ہمراہ سلطان العرب والعجم حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی نورانی و ملکوتی بارگاہ کی زیارت کے مقصد سے مشہد مقدس آئے تھے انہوں نے شہر کے در و دیوار خصوصاً حرم امام رضا(ع) کواپنی آنکھوں میں اتار لیا اور ان مشاہدات میں ہر دلچسپ لگنے والی چیز سے متعلق سوال پوچھتے ہیں ،اُس سال وہ گرمیوں کا موسم امام رضا(ع) کے جوار میں گزارتے ہيں اور ان ایّام میں جو کچھ دیکھا اور سنا انہیں کاغذ کے ٹکڑوں پر تحریر کر ڈالا تاکہ بھول نہ جائيں ۔
اُن کے ان تمام مشاہدات اور سوالات کا نتیجہ ایک معلوماتی خزانہ بن گیا اگرچہ ان میں کچھ چیزوں کے بارے میں کوئی تاریخی سند یا دستاویز نہیں ملتی لیکن ان سے کم از کم یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ ۱۴ ویں شمسی صدی کے آغاز میں حرم رضا (ع) اور اس میں پائی جانے والی عمارتوں سے متعلق لوگ کیا سوچتے یا کہتے تھے ۔
حاجی داؤود کے بارے میں ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے صاحبزادے روشن علی کے مطابق جو حاجی داؤود کے سفرنامہ کے دیباچہ میں درج ہے؛ کہ حاجی داؤود نے کبھی بھی اس سفر نامے کی اشاعت کا نہیں سوچا تھا ،بلکہ حاجی داؤود کی وفات کے بعد ان کے اہلخانہ کو اتفاقی طور پر مشہد مقدس کے اس سفر سے متعلق کاغذات ملتے ہیں جنہیں بعد میں وہ شائع کروا دیتے ہیں،ذیل کی چند سطریں سفرنامے میں درج حرم امام رضا(ع) کی زیارت سے متعلق یادوں اور مشاہدات سے اقتباس ہیں۔
مشہد مقدس پہنچنا
حاجی داؤود مشہد مقدس میں اپنی آمد کا آغاز جناب سید محمد کاظم لنگ کی یاد سے کرتے ہیں جنہیں وہ غلطی سے حرم امام رضا(ع) کا متولی لکھتے ہیں:
’’ الحمد للہ ساڑھے چار بجے مشہد مقدس پہنچے ،حرم مطہرکاسنہری گنبد پانچ سے سات میل(ہر میل ۱۶۰۰میٹر ہے)کے فاصلے پر دکھائی دے رہا تھا جو سورج کی روشنی سے مزید چمک رہا تھا ہم سب نے اس ناقابل بیان منظر کو دیکھا اوراپنی عقیدت و محبت کا اظہار کیا، جب ہم دزداب شہرسے نکل رہے تھے تو ہم نے مشہد کے متولی(۱) جناب سید محمد کاظم لنگ کو ٹیلی گرام بھیجا اسی لئے وہ شہر پہنچنے سے دو تین میل پہلے ہمارے استقبال کے لئے آئے اورہمارے لئے اپنے خوبصورت گھر میں تمام سہولتیں فراہم کیں، میں نے انہیں ہمیشہ زائرین کے آرام و آسائش کے لئے فکرمند دیکھاحتی دکانداروں کو بھی نصحیت اور سفارش کرتے تھے کہ وہ زائرین کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آئيں اور کبھی کبھی زائرین کے لئے دکانداروں سے رعایت میں سامان دلواتے تھے‘‘
روضہ منورہ اور ضریح امام رضا(ع) کی پہلی زیارت
حاجی داؤڈ اپنی گفتگو کو جاری رکھتےہوئے روضہ منورہ اور ضریح مطہر امام رضا(ع) کی پہلی زیارت کونہایت جوش و جذبہ کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں:’’میں جب مشہد مقدس کے بارے میں لکھتا ہوں تو ہر چیز پر حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا(ع) کے روضہ منورہ کی توصیف کو مقدم سمجھتا ہوں، میں ۹اگست۱۹۲۶ کا وہ یادگار دن ہرگز نہیں بھول سکتا جب پہلی بار اس مقدس مقام کو دیکھا، مسجد گوہر شاد میں داخل ہوتے ہی ایسے محسوس ہوا جیسے چاروں طرف سے خوبصورت نظاروں نے گھیر رکھا ہے ،تمام صحن اور روضہ منورہ زمین پر بہشت کی مانند تھے ایک وسیع و عریض جگہ تھی ، جب مسجد گوہر شاد میں داخل ہوئے تو اس وقت شام ہونے میں ابھی کافی وقت تھا البتہ زائرین ظہر و عصر کی نمازیں ادا کر چکے تھے ،صحن کے ایک حصے میں واعظین اور مبلغین تبلیغ کر رہے تھے ،کچھ دعا میں مشغول تھے تو کچھ زیارت نامہ یا قرآن کو بلند آواز میں پڑھ رہے تھے ،ہم صحن مسجد گوہر شاد سے ایسے صحن میں داخل ہوئے جو فتح علیشاہ قاجار کے دورحکومت میں تعمیر ہوا اور نئے صحن کے نام سے مشہور تھا ،تینوں صحن (۲)روضہ منورہ کے اطراف میں واقع تھے اور اس وقت مجموعی طور پر پندرہ دروازے تھے ،صحن اتنے وسیع تھے کہ ان میں پچاس ہزار سے زیادہ لوگ آسکتے تھے ۔
زمین پر بہشت مسجد گوہر شاد ہے / جدھر دیکھتا ہوں دروازہ کھلا نظر آتا ہے ، سب سے زیادہ نماز جماعت اورمجالس مسجد گوہر شاد اور اس کے صحن میں منعقد ہوتی ہیں ،اسی صحن سے ہم روضہ منورہ کے اندر داخل ہوئے ، پہلا بڑا دروازہ جس سے ہم داخل ہوئے چاندی کا تھا،حرم میں اس طرح کے دس اور دروازے بھی تھے ،روضہ منورہ میں داخل ہونے کے بعد دارالحفاظ میں داخل ہوتے ہیں اور یہیں پر زیارتنامہ پڑھتے ہیں ،روضہ منورہ یعنی جہاں پر امام رضا(ع) کی قبر مطہر ہے اس کے اطراف میں دس رواق(ہال) ہیں۔ ‘‘
حرم امام رضا(ع) کے انتظامات کا ادارہ ۱۵۰۰خادموں پر مشتمل
روضہ منورہ کی تفصیلات کے بعد ایک اور موضوع حرم مطہر کے انتظامات اور تعمیرات ہے جس کے بارے میں اس ہندوستانی زائر نے نہایت دقّت کے ساتھ وضاحت کی ہے ،ان معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ ایک صدی پہلے حرم امام رضا(ع) کس طرح تھا اور خادموں کی تعداد کتنی تھی:
’’حرم مطہر کے مقدس مقامات کے انتظامات اور خدمت کے فرائض انجام دینے کے لئے ۱۵۰۰ خادم ہیں جو باری باری صحن کی صفائی کرتے ہیں ،قرآن پڑھتے ہیں اور دیگر تفویض کردہ ذمہ داریوں کو انجام دیتے ہیں ،ہر زائر جو مشہد مقدس میں تشریف لاتا ہے وہ ایک وقت کے کھانے کے لئے حضرت امام علی رضا(ع) کے مہمانسرا میں مہمان ہوتا ہے ،حرم مبارک آستان قدس کی جائیداد سے حاصل ہونے والی سالانہ آمدنی تقریباًڈیڑھ لاکھرتومان ہے جو کہ ساڑھے چار لاکھ روپے کے برابر ہے ، اس آمدنی سے خادموں اور ملازمین کی تنخواہیں دینے کے علاوہ دینی تعلیما ت یعنی دینی طلباء اور واعظین و مبلغین کی مددکے ساتھ دارالشفاء پر بھی خرچ کیا جاتا ہے ،ملازموں کی تنخواہ ۱۰ ہزار تومان(۳۵ ہزار روپے ) ہے ،اُس وقت ایک انتظامی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس کی سربراہی دارالحکومت میں شاہ ایران کر رہا تھا اور مشہد مقدس میں اس کا ایک نمائندہ تھا جو آستان قدس کے تمام امور کو سنبھالتا تھا ۔‘‘
جب رات کو حرم کے دروازے بند کر دیتے
اس دور کی یاد کو جب حرم کوفقط دن کے مخصوص اوقات میں کھولا جاتا تھا اورکئی بار نماز جماعت ادا کی جاتی تھی؛سفرنامہ تحریر کرنے والے نے خود اس کا تجربہ کیا اور اپنے سفر نامہ میں تحریر کیاہے:
’’ہر روز صبح کی اذان سے ایک گھنٹہ پہلے روضہ مبارکہ کو کھول دیا جاتااور رات کو دس بجے حرم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ؛مخصوص راتوں اور شب جمعہ کے علاوہ ہر روز صبح کے وقت تین چار مقامات پر نماز جماعت کا انعقاد کیا جاتا اور علمائے کرام مومنین کو روز مرّہ پیش آنے والے مسائل سے آگاہ کرتے ،اسی طرح ظہر سے عصر تک چند نمازیں پیش نمازوں کے ذریعہ سے پڑھائی جاتی اورہر کوئی اپنی مرضی کے مطابق کسی ایک نماز جماعت میں شرکت کرتا، علمائے کرام اذان مغرب سے پہلے شرعی احکام اور مسائل بیان کرتے اور اذان مغرب کے فوراً بعد تینوں صحنوں میں نماز جماعت شروع ہو جاتی اور مکبّرین کی آواز کے علاوہ اور کوئی آواز کانوں کو سنائی نہیں دیتی تھی کیونکہ رات کے وقت لوگوں کو کام کاج کم ہوتے تھے اس لئے نماز جماعت میں بھی زیادہ تعداد میں شریک ہوتے،خواتین نماز جماعت کی آخری صفوں میں ہوتی تھیں،خواتین کے لئے بھی مجالس اور شرعی مسائل کی کلاسزز کا انعقاد کیا جاتا تھا۔‘‘
حاجی داؤود کے سفرنامے کی اگلی چند سطریں روضہ منورہ کی لائیٹنگ،خراسان کے فوجی لشکر کاامام رضا(ع) کو سلام اورایّام محرم الحرام کی عزاداری سے متعلق ہیں جن کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
’’رات کے وقت روضہ منورہ کی لائیٹنگ الیکٹرک جنریٹرکے ذریعہ سے انجام پاتی تھیں یہ جنریٹر مادر آقاخان کی جانب سے حرم کو عطیہ کیا گیا تھا ،جمعرات کے دن آرمی کے وہ افراد جن کا فوجی مرکز شہر سے قریب تھا زیارت کے لئے لائے جاتے تھے ظہر کے بعد سہ پہر تین بجے تمام فوجی باقاعدہ منظّم طریقےسے زیارت کے لئے داخل ہوتے اورصحنوں میں نماز کی صفوں کی طرح کھڑے ہوتے اور خادموں میں سے ایک خادم منبر پر ان کے لئے زیارت نامہ پڑھتاجس کے اختتام پر تمام فوجی حضرت امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی نورانی بارگاہ میں اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے اور پھر صحن سے باہر چلے جاتے ،چہلم امام حسین(ع) کے موقع پر عزاداری کے خاص پروگرام منجملہ مجالس و سینہ زنی وغیرہ کے پروگرام منعقد کئے جاتے اوراس موقع پر عزاداروں میں عجیب وغریب جوش و ولولہ ہوتا ۔حضرت امام علی رضا(ع) کے یوم شہادت پر بھی یعنی ۲۹صفر کو عظیم الشان مجلس اور عزاداری کا انعقاد کیا جاتا،۲۹ صفر کی رات ہزاروں افراد صحن عتیق میں اکھٹے ہوتے اوررات ۹ بجے صحن کے دروازے بند کر دیئے جاتے تھے اور کوئی شخص صحن سے خارج یا صحن میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد ذاکرین شب وفات کا مخصوص خطبہ پڑھتے ، زائڑین کی کثیر تعداد ہونے کے باوجود خطبہ پڑھتے وقت خاموشی ہوتی تھی اور خطبہ کی آواز اچھی طرح سے سنائی دیتی تھی ،خدام دو صفوں میں ایک دوسرے کےآمنے سامنے پورے صحن کے اطراف میں کھڑے رہتے ان کے درمیان میں تقریباً ۱۵۰خادموں کی ایک اور صف ہوتی تھی ان پروگراموں میں روضہ منورہ کے تمام خادم جن کی تعداد۱۵۰۰ہے سب کے سب حاضر ہوتےہیں ہر خادم کے ہاتھ میں جلتی ہوئی کینڈل(موم بتی)ہوتی تھی جس کی وجہ سے مراسم با شکوہ تر نظر آتے ایسا لگتا تھا جیسے ایک سوئچ سے سینکڑوں بلب روشن ہوئے ہیں۔۱۵۰خادموں کی درمیان والی صف جب خطبہ پڑھ لیتی تو فارسی اور ترکی میں نوحہ خوانی کرتے ہوئے ماتمی دستوں کی طرح حرکت کرتے جس سے پورا مجمع انہی کی طرف متوجہ ہوتا تھا ،خدام اسی طرح گریہ وزاری اور محزون حالت میں نوحہ خوانی کرتے ہوئے تین چکر لگاتے ،میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسی عظیم عزاداری نہیں دیکھی ،عزاداری کے پروگرام ہونے کے بعد تمام مومن خواتین و حضرات غمگین دل اور حزن و ملال کے ساتھ صحن سے چلے جاتے ۔کہا جاتا ہے کہ اسی طرح کی تقریب حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی شب میں بھی منعقد کی جاتی ہے کیونکہ ۱۱ذیقعد کا دن اہل خراسان کے لئے بہت با عظمت دن ہے ،امام رضا(ع) کی شب شہادت کی طرح شب عاشور کے پروگرام بھی صحن میں منعقد کئے جاتے ہیں جن میں وہ زائرین جو اس وقت مشہد مقدس ہوتے ہیں شرکت کرتے ۔‘‘
ریسرچ: علی سعیدیان
اہم نکات:
- اس وقت محمد ولی خان اسدی آستان قدس رضوی کے متولی تھے اور ان سے پہلے مرتضیٰ قلیخان اس عہدے پر فائز تھے مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس وقت جناب محمد کاظم لنگ خدام کے امور کے انچارج یا متبرکہ کمروں کے امورکے سربراہ تھے۔
- اس وقت حرم میں صحن عتیق، صحن نو اور صحن موزہ(میوزیم) تھا
آپ کا تبصرہ