انہوں نے کہا کہ اسلام کے لیے اس مقام کی اہمیت کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان اس مسجد کو پیغمبر اسلام (ص) کے معراج کی جگہ سمجھتے ہیں۔پیغمبر(ص) نے اپنی آسمانی سواری کو جس کے ذریعہ اس مقدس سفر پر نکلے اس کی مغربی دیوار سے باندھا، مغربی دیوار دوسرے معبد(ہیکل) کا واحد بچ جانے والا حصہ ہے جو کہ آج یہودیوں کے لئے ایک مقدس مقام ہے یہ جگہ مسلمانوں کا قبلہ اوّل بھی ہے ، کہا جاتا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں پیغمبر اسلام(ص) کے قدموں کے نشان بھی پائے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰ(ص) نے اپنا بچپن اور جوانی اسی شہر میں گزاری اورعیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق آپ کو اسی شہر میں صلیب پر چڑھایا گیا اور تین دن بعد آپ واپس آگئے ، حضرت عیسیٰ(ع) نے اس شہر میں دین کی تبلیغ کی ،تمام مذکورہ واقعات عیسائی دین کے لئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اورعیسائیوں کے لئے یہ شہر بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔
محمد رضا احمدی نے کہا کہ یہودیوں کے نقطہ نظر سےاس جگہ پر پہلا معبد(ہیکل)حضرت سلیمان(ع) نے تعمیر کیا،بابلیوں کے ہاتھوں اس معبد کی تخریب کے بعد دوسرا معبد ہیرود کبیر نے بنایا۔آج دوسرے معبد(ہیکل) کا واحد بچ جانے والا حصہ مغربی دیوار ہے جو کہ یہودیوں کی عبادت گاہ بھی ہے یہودی عبادت کے لئے اس معبد کی طرف رخ کرتے ہیں۔
ابراہیمی ادیان و مذاہب کی نظر میں اس جگہ کی اہمیت یہ ہے کہ یہ جگہ بین المذاہب گفتگو اور ادیان و مذاہب کے مابین مختلف چیلنجوں اور موجودہ دور کے مختلف مسائل سے نمٹنے کے لئے ایک مناسب مقام کی حامل ہے ، ان مشترکات میں مسئلہ فلسطین کا ذکر کیا جاسکتا ہے کہ جس نے مسلمانوں ، عیسائیوں اور روشن خیال یہودیوں کو اکھٹا کر کے ابراہیمی ادیان و مذاہب کے حقیقی اصولوں کا دفاع کرنے پر مجبور کیا ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کے ساتھ ساتھ امریکہ اور صیہونی حکومت سمیت بعض دیگر ممالک کی طرف سے دینی اصولوں کو تحریف کرنے اوردین کی مخالفت کے پیش نظر مسجد الاقصیٰ ان تمام مسائل کا مقابلہ کرنے میں کلیدی حیثیت کی حامل ہے ۔ وہ ممالک اور آرگنائزیشنز اور تنظیمیں جو ابراہیمی ادیان و مذاہب کے اصولوں کی حقیقی بنیادوں پر حمایت کرتی ہیں انہیں چاہئے کہ امریکہ اور اسرائیل سمیت چند دیگر ممالک کی طرف سے پیش کردہ مسخ شدہ ادیان کے مدّ مقابل ابراہیمی ادیان و مذاہب کے حقیقی چہرے کے عنوان سے مسجد الاقصیٰ کی آزادی کی تحریک کے لئے باہمی تعاون کی غرض سے حالات ساز گار بنائيں
اس مسئلہ کی اہمیت کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی تحریک کے لئے حقیقی ابراہیمی ادیان و مذاہب کا جائزہ لیا جائے جس میں مختلف ممالک اور آرگنائزیشنز کے سیاسی،اقتصادی اور سماجی نقطہ نظر اور فیصلوں کو مدّ نظر رکھا جائے جن میں حقیقی دین کے مختلف پہلوؤں اور موجودہ دور کے چیلنجوں سے نمٹنے کے پہلو شامل ہیں ۔
مدنی معاشرے کے بین الاقوامی انسائیکلو پیڈیا میں جناب ہیلمٹ آنہیر کہتے ہیں کہ مساجد ہمیشہ سے مغربی سامراجی عناصر اور گروہوں کا مقابلہ اور جدو جہد کرنے کا مرکز رہی ہیں چونکہ مسجد الاقصیٰ ابراہیمی ادیان و مذاہب کا مشترکہ مرکز ہے اس لئے ان ادیان و مذاہب کے حقیقی پیروکار اس مسجد کے ذریعہ جدید سامراجی روشوں کو بیان اور ان کے خلاف جد وجہد کر سکتے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی کانفرنس’’ قدس ادیان و مذاہب کا مشترکہ ورثہ‘‘۲۲ رمضان المبارک۱۴۴۴ ہجری قمری کو قومی اور بین الاقوامی شخصیات کی موجودگی میں حرم امام رضا علیہ السلام میں منعقد کی گئی ۔
آپ کا تبصرہ