آیت اللہ احمد مروی: صیہونی رجیم اور ایران کی حالیہ جنگ سےحاصل ہونے والی اہم ترین کامیابی ،قومی یکجہتی ہے

آستان قدس رضوی کے متولی نے کہا کہ صیہونی رجیم کی جارحیت کے خلاف ملتِ ایران کی مقاومت سے معاشرے کے تمام طبقات میں غیرمعمولی طور پر قومی یکجہتی پیدا ہوئی ہے ،انہوں نے اس بات پر تاکید کی کہ آج فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ حقیقی فاتح وہ ہے جو اس واقعہ کو صحیح طرح سے منتقل کر سکے ، اس لئے صاحبان قلم،منبر،پلیٹ فارمز اور پوری قوم کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قومی فتح کو برقرار رکھنے اور اس کے استحکام کے لئے فعال اور مؤثر کردار ادا کریں۔

آستان نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ مؤرخہ 24 جون2025 بروز منگل کو ’’فتح قریب‘‘ کے عنوان سے تجزیاتی و وضاحتی اجلاس حرم امام رضا علیہ السلام میں منعقد ہوا جس میں زائرین و مجاورین سمیت حرم امام رضا علیہ السلام کے خادمین نے بھی شرکت فرمائی ، اس اجلاس سے آیت اللہ احمد مروی نے خطاب کرتے ہوئے ایران اور صیہونی رجیم کے مابین حالیہ جنگ کے پہلوؤں پر تجزیہ پیش کیا۔

انہوں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں صیہونی رجیم کی جارحیت میں شہید ہونے والے جرنیلوں،فوجی کمانڈروں،دفاعی افواج کے سپاہیوں اور مظلوم شہریوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور میدان جنگ میں مؤثر اور فعال طور پرموجود رہنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں ہماری سب سے اہم ذمہ داری اس میدان میں فعال کردار ادا کرنا ہے ،ہمیں دشمنوں کے پروپیگینڈوں کے سائے میں قومی فتوحات او رکامیابیوں کو دبنے سے روکنا ہے ۔

 آیت اللہ مروی نےمزید یہ کہا کہ دشمن کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اس جنگ کے اہم کارناموں کو نظر انداز کرتے ہوئے صیہونی رجیم کو میدانِ جنگ کا فاتح قرار دے ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ دشمن اپنے کسی بھی شوم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکا۔

انہوں نے ایرانی عوام کی حالیہ مثالی یکجہتی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم میں مذہبی، ثقافتی اور سیاسی تنوع کے باوجود گذشتہ 47 برسوں میں کبھی بھی ایرانی قوم نے اس طرح کے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ نہیں کیا،ان نازک حالات میں تمام سیاسی و سماجی دھاروں نے مسلح افواج کی حمایت کر کے قومی عزم و حوصلوں کو بلند کیا،یہ اتحاد و یکجہتی اس حساس دور کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے ۔

حالیہ حملے میں دشمن کے ناکام اہداف

آستان قدس رضوی کےمتولی نے حالیہ حملے میں دشمن کے شوم اور ناکام اہداف پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے جنگ شروع نہیں کی تھی بلکہ دشمن نے متعدد اہداف کے ساتھ جارحیت کا آغاز کیا،ان اہداف میں یورینم کی افزودگی کے عمل کو روکنا اور ایران کی جوہری صنعت کو تباہ کرنا 400کلوگرام یعنی 60 فیصد افزودہ یورینیم پر قبضہ کرنا ،معاشرے میں انتشار پھیلانا اورملک کی دفاعی صلاحیت کو کمزور کرنا شامل تھے ،لیکن وہ ان میں سے کسی بھی مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

آیت اللہ مروی نے اس بیان کے ساتھ کہ ایران کی جوہری صنعت کا بنیادی ڈھانچہ اب بھی محفوظ ہے ،کہا کہ ہم یہ مانتے ہیں کہ دشمن نے تھوڑا بہت نقصان ضرور پہنچایا ہے لیکن یہ بات سب جان لیں کہ ایران کا جوہری علم مقام ہے یہ کوئی درآمد شدہ چیز نہیں ہے جو بمباری سے ختم ہو جائے ۔

انہوں نے مزید یہ کہا کہ اس سے پہلے بھی دشمن نے کئی ممتاز سائنسدانوں اور دانشوروں کو شہید کر کے اس سائنسی ترقی کو روکنے کی مذموم کوشش کی تھی لیکن ایران کا یہ علمی سفر نہ صرف جاری رہا بلکہ مسلسل ترقی کی جانب گامزن ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی پسپائی نظر نہیں آئی۔

آستان قدس رضوی کے متولی نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ دشمن کو ایرانی قوم کی کوئی صحیح شناخت نہیں ہے وہ یہ خیال کر رہے تھے کہ ایرانی عوام مشکلات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کھو چکی ہے اور ظالمانہ پابندیوں کی وجہ سے ان کی برداشت ختم ہو گئی ہے ،ان کا یہ وہم تھا کہ معاشرہ بغاوت اور ٹوٹ پھوٹ کے دہانے پر ہے ، لیکن جو کچھ اس جنگ کے دوران ہوا وہ اس کے بلکل برعکس تھا،ایرانی معاشرے میں ہمدردی ،یکجہتی،محبت اور وطن سے گہری وابستگی پہلے سے کئی گنا زیادہ کھل کر سامنے آئی ہے گذشتہ 47 برس میں اس اتحاد و یکجہتی کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔

افواجِ ایران کے فیصلہ کن اور فوری جواب کا صیہونی رجیم کو شدید دھچکا

آستان قدس رضوی کے متولی نے مصر، شام اور اردن کی اسرائیل کے ساتھ1967 کی چھ روزہ جنگ یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور امریکہ اس چال کو جو انہوں نے 1967 میں مصر کے خلاف چلی تھی ایران میں بھی وہی چال چلنا چاہتے تھے ۔ اس وقت مصر کو اسرائیل سے جنگ لڑنی تھی لیکن اسرائیل نے پیشگی حملہ کرتے ہوئے مصر کے دفاعی نظام کو تباہ کر دیا اورصرف چھ دنوں کے اندر اندر جنگ صیہونی رجیم کے حق میں ختم ہو گئی ،دشمن سمجھ رہا تھا کہ ایران کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے لیکن اسلامی جمہوریہ ایران کے فیصلہ کن، فوری اور منظم جوابی کاروائی نے ان کے تمام حساب و کتاب الٹ کر رکھ دیئے ۔

آیت اللہ مروی نے مزید یہ کہا کہ ’’آپریشن وعدہ صادق3‘‘ محض چند گھنٹوں میں شروع کیا گیا اور فوری طور پر متبادل کمانڈرز تعینات کئے گئے ،اس عمل سے ملک کے دفاعی ڈھانچے کی مکمل آمادگی اور استحکام کا پتہ چلتا ہے ،یہ سب دشمن کے لئے غیر متوقع تھا۔

 ان واقعات کا سب سے بڑا کارنامہ ؛ قومی یکجہتی ہے

آیت اللہ مروی نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہ ان واقعات کے دوران ملک کو کئی اہم کارنامے حاصل ہوئے جن میں سب سے نمایاں کارنامہ قومی اتحاد و یکجہتی تھا، صیہونی رجیم یہ سمجھ رہا تھا کہ ایرانی قوم بھی مقبوضہ علاقوں کے رہائشیوں کی طرح بکھری ہوئی اوربی ضابطہ اقوام کا مجموعہ ہے ، لیکن یہاں کی عوام نے تمام تنوع کے باوجود اس مشکل اور نازک وقت میں ہمدری اور اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔

آیت اللہ مروی نے مزید یہ کہا کہ عوامی یکجہتی اتنی حیرت انگیز تھی کہ مختلف نظریات کے حامل افراد نے بھی یکجا ہو کر دشمن کے مقابلے میں اپنی سرزمین کی سالمیت اور قومی شناخت کا دفاع کیا، دشمن یہ سمجھ رہا تھا کہ ایرانی معاشرہ تقسیم ہو جائے گالیکن قومی یکجہتی نے ان کے تمام منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔

آیت اللہ مروی نے کہا کہ کسی ایک ملک کے وزیر اعظم نےکہا کہ ’’یہ ایران قوم ہے جو اس کام کو مکمل کرے گی‘‘اور پھر یہی ہوا ، ایرانی قوم نے صیہونی رجیم کے خلاف اپنے اتحاد سے کام مکمل کر کے دکھایا،دشمن کا یہ وہم تھا کہ ایران پر حملے کے بعد ملک کو معمول پر آنے میں طویل ععرصہ لگے گا،لیکن اسلامی انقلاب کے عظیم لیڈر و راہنما کی حکمت عملی نے دشمن کو حیران و پریشان کر دیا اور دشمن کی تمام سازشوں پر پانی پھر گیا۔

دفاعی طاقت؛ علم اور قومی ایمان کا ثمر ہے

آستان قدس رضوی کے متولی نے ملکی دفاعی صلاحیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کئی برسوں سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال تھا کہ ایران کو جوہری علم اور میزائل بنانے والی ٹیکنالوجی کی ضرورت کیوں ہے ،لیکن آج اس سوال کا جواب واضح ہو گیا ہے اگر آج ہمارے پاس یہ دو طاقتیں نہ ہوتیں تو غزہ جیسے واقعات ایران میں بھی دہرائے جا سکتے تھے ،ہمارا دشمن ایرانی قومی پر ظلم و جارحیت کرنے میں ایک لمحہ بھی شک نہ کرتا،یہ وہی حققیت ہے جس کی طرف قرآن کریم میں بھی ذکر ہوا ہے’’ وَأَعِدُّوا لَهُم مَا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ‘‘(اور تم ان کے مقابلے میں اپنی پوری طاقت سے تیاررہو)۔

آیت اللہ مروی نے مزید یہ کہا کہ انقلاب اسلامی سے پہلے دشمن ہر حملے میں ایران کا کوئی نہ کوئی حصہ اپنے قبضے میں لے لیتے تھے ، لیکن دفاع مقدس کے دوران عالمی حمایت کے باجود ، صدا ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہ کر سکا،ایران کی سرزمین پر دست درازی کا دور ختم ہو چکا ہے اور صیہونی رجیم کا رعب و دبدبہ ایرانی قوم کی مقاومت سے ختم ہو گیا ہے ۔

بین الاقوامی اداروں اور مغربی حکومت کا اصلی چہرہ بے نقاب

آستان قدس رضوی کے متولی نے بین الاقوامی اداروں کے طریقہ کار پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بہت سارے عالمی اداروں نے اپنے فرائض سے منہ موڑ لیااور امریکہ و اسرائیل کے ایران پر حملوں کی مذمت کرنے سے بھی گریز کیا،بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے حالیہ قرار داد منظور کر کے درحقیقت ایران کے جوہری مراکز پر حملے کی راہ ہموار کی،گذشتہ گیارہ روزہ جنگ نے دنیا کے سامنے ان اداروں کا اصلی چہرہ اور مغرب نوازی فطرت کو بے نقاب کر دیا ہے۔

آیت اللہ مروی نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس جنگ کا ایک اور اہم کارنامہ یورپی ممالک کی رسوائی ہے ،ملک کے اندر بعض افراد اب بھی مذاکرات کی بات کرتے ہیں لیکن امریکہ اور یورپ کے رویے اور مذاکرات کے دوران کی گئی غداریوں نے یہ ثابت کر دیا کہ ان کے انسانی حقوق کے دعوے محض ڈھونگ ہیں۔

انہوں نے مزید تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ نئی نسل کوانقلاب سے پہلے پہلوی حکومت اور امریکہ کے مظالم، لوٹ مار اور جارحیتوں کی مکمل معلومات نہ ہوں لیکن اس جنگ نے مغرب کی اصلی فطرت کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا ہے اور ملتِ ایران کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کر دیا ہے ، اس الہیٰ امتحان نے دشمنوں کے چہرے سے منافقت اور دھوکے کے نقاب کو اتار پھینکا ہے ۔

گفتگو کے تسلسل میں آیت اللہ مروی نے صیہونی رجیم کے ایرانی عوام سے جھوٹی دوستی کے دعوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے ہمیشہ سے ایرانی عوام سے دوستی کا دعویٰ کیا ہے لیکن اس جنگ میں ہمارے اکثربے گناہ عام شہری شہید ہوئے ہیں جنہیں ان کے گھروں میں صیہونی رجیم نے حملوں کا نشانہ بنایا۔ کیا یہ رویّہ ایرانی عوام سے دوستی کی علامت ہے؟

ہوشمندانہ سفارت کاری اور فعال حکومت

آستان قدس رضوی کے متولی نے فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ فعال اور ہوشمندانہ سفارت کاری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں سفارتی محاذ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ،ان واقعات کے دوران خطے کے کئی ممالک کے ایران کے بارے میں موقف میں تبدیلی آئی ہے اور اس وقت وہ ماضی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ایران کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔

کارناموں اور حقائق کو درست بیان کرنے کی ضرورت؛بیان بازی کی جنگ میں عوام کا کردار

آیت اللہ مروی نے جنگ بیان کرنے کو لڑائی کا نیا مرحلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سخت جنگ کے بعد اصلی معرکہ بیان کے میدان میں شروع ہوا ہے اس لئے ہر صاحب قلم،صاحب منبر اور میڈیا کے ذمہ داران پر فرض ہے کہ وہ اس جنگ کے حقائق، عظیم کارناموں اور کامیابیوں کو عوام بالخصوص نوجوان نسل تک پہنچائیں،تاکہ دشمن کے تحریف شدہ بیانات اور پروپگینڈوں کی وجہ سے غلط فیصلوں کا شکار نہ ہوں۔

انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ دشمن وہ کچھ جو میدان جنگ اورپابندیوں سے حاصل نہیں کرسکا وہ بیان بازیوں کی جنگ کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتا ہے ،لہذااس میدان میں ہر قسم کی بے حسی اور بے تفاوتی درحقیقت میدان کو دشمن کے حوالے کرنے کے مترادف ہے ۔

آستان قدس رضوی کے متولی نے اپنی گفتگو کے اختتام پر دو ٹوک انداز میں یہ اعلان کرتے ہوئے کہا کہ دشمن اپنے کسی بھی شوم اور خبیثانہ مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکا ،ایرانی قوم اتحاد، ایمان اور عزم و جرات کے ساتھ اس سخت امتحان میں سرخرو ہوئی ہے ۔

News Code 6676

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha