آستان نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ آستان قدس رضوی کی مرکزی لائبریری کے غیرملکی کتب کے خصوصی ہال کے لائبریرین جناب علی مہاجری نے ہفتہ کتاب کے موقع پر ہمارے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ سفرنامہ جو کہ دو جلدوں پر مشتمل ہے کرنل’’C.M MACGREGOR ‘‘کے توسط سے 1875 عیسوی میں تحریر کیا گیا، یہ سفرنامہ عسکری تجزیے اور سفرنامہ نویسی کے حوالے سے ایک اہم کتاب ہے ۔
انہوں نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب پہلی بار 1879 عیسوی میں چھوٹے سائز کی جلدکے ساتھ شائع کی گئی جس میں مصنف نے خراسان اور افغانستان کے سرحدی سفر کا تفصیلی احوال بیان کیا ہے ۔
واضح رہے کہ اس کتاب کے 24 صفحات اسی سفرنامہ کی تصاویر سے متعلق ہیں۔
جناب مہاجرانی نے بتایا کہ کتاب کے مصنف میک گریگر برطانوی فوج کے سینیئرکماندروں میں سے تھے اور ملٹری انٹیلی جنس کے تجربہ کار آفیسر تھے ، انہوں نے یہ سفر ایران اور افغانستان کے اسٹریٹیجک علاقوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے مقصد سے انجام دیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس دو جلدی سفر نامے کو فارسی زبان میں بھی ترجمہ کیا گیا ہے ،دنیا میں اس کتاب کے اصل نسخے یعنی انگریزی زبان میں بہت ہی محدود تعداد موجود ہیں۔یہ کتاب 1956 عیسوی میں آستان قدس رضوی کے توسط سے خریدی گئی۔
آستان قدس رضوی کے علاوہ ’’ییل ‘‘ یونیورسٹی اور نیویارک کی پبلک لائبریری میں بھی اس کتاب کا اصلی نسخہ موجود ہے ۔
محققین کے لئے ایک قیمتی ماخذ
آستان قدس رضوی کی مرکزی لائبریری کے غیرملکی ہال کے لائبریرین نے اس سفرنامہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کے مندرجات کا تعلق اس دور سے ہے جب خراسان اور افغانستان کی سرحدیں سامراجی طاقتوں بالخصوص برطانیہ اور روس کے لئے بہت زیادہ اہمیت رکھتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ دو طاقتوں کے درمیان اس خطے کو کنٹرول کرنے اور تجارتی اور فوجی راہداریوں کے طور پر استعمال میں لانے کے لئے سامراجی قوتوں کی محاذ آرائی کی وجہ سے اس طرح کے سفرناموں کو جیوپولیٹیکل تجزیے کے اہم ذرائع کے طور پر شائع کیا گیا۔
مک گریگر نے اس سفرنامے میں ان دونوں قوتوں کی محاذ آرائی اور خطے کی عسکری صورتحال کا بغور تجزیہ کیا ہے ۔
جناب مہاجرانی نے بتایا کہ عسکری امورپر توجہ دینے کے علاوہ مختلف علاقوں کے مقامی لوگوں کی ثقافت اور رسم و رواج کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے
اس طرح کی وضاحت اور تفصیلات محققین اور مؤرخین کے لئے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔
اس سفرنامے کی ایک اور نمایاں خصوصیت ایران اور افغانستان کے پہاڑی اور سرحدی علاقوں میں سفری مشکلات کی طرف توجہ دلانا ہے
مک گریگر نے قدرتی خطرات اور مقامی قبائل سے نمٹنے اور دیگر مسائل کے چینلجوں کا ذکر کیا ہے اس کے علاوہ اپنے مشاہدات میں علاقے کے جغرافیائی اور سلامتی حالات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے
یہ سفرنامہ اب بھی ان علاقوں کی عسکری اور جغرافیائی سیاسی تاریخ کے حوالے کے طور پر ایک اہم ماخذ جانا جاتا ہے ،اس سفر کے نویں باب میں مصنف نے خراسان اور ترکمنستان وغیرہ کے علاقوں کے سفر کےسماجی، سیاسی اور ثقافتی تجزیے کے ساتھ اپنے مشاہدات اور تجربات پیش کئے ہیں جن میں مشہد مقدس کا سفر بھی شامل ہے
مصنف نے مقامی حکومتوں کی نا اہلی اور غیرملکیوں کی جانب سےدر پیش خطرات کا بھی ذکر کیا ہے ۔
آپ کا تبصرہ