آستان نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ حرم امام رضا(ع) کے صحن پیامبر اعظم(ص) میں شب عاشور کی مناسبت سے خطبہ خوانی کی روایتی تقریب منعقد کی گئی جس میں آیت اللہ احمد مروی نے حضرت امام حسین(ع) اور ان کے باوفا ساتھیوں کی شہادت پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جس چیز نے واقعہ عاشورا کو پوری بشریت کے لئے ایک لافانی اور جاویدان حماسہ میں بدل دیا وہ شہدائے کربلا کا امام حسین(ع) کے ساتھ ثابت قدم رہنا اور استقامت و مزاحمت کا جذبہ تھا ،یہ کربلا کا وہ عظیم اور ابدی سبق ہے جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ حق کی پہچان آغاز ہے اور حق کے راستے پر چلنا دوسرا قدم ہے لیکن حق کے ساتھ رہ کر جان کی بازی لگانا یہ حقیقی ایمان ہے ۔
انہوں نے حالیہ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی دشمن اور ظالم و جابر امریکہ جو آج ہمارے مکتب، ہمارے قومی و دینی تشخص،ہماری خود مختاری اور ہمارے وطن کو نشانہ بنا رہے ہیں ،ایران پر حملے کے وقت ایرانی غیرت مند قوم کی مزاحمت کو شکست دینے اور ان کے عزم و ارادے میں تردید پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن عوام نے ان کی تمام خام خیالیوں کو خاک میں ملا دیا۔
گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہمارے جرنیلوں کو شہید کیا، سائنس دانوں کو شہید کیااور بے شمار معصوم لوگوں کو شہید کیا ،بمباری کی صرف اس لئے کہ ایرانی قوم کی استقامت اور ثابت قدمی کے جذبے کو توڑ سکیں ،لیکن ایران کی مومن، غیرت مند اور بہادر قوم ایک بار پھر قرآن کریم کی اس آیت«فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ» کی زندہ تصویر بن گئی۔
آستان قدس رضوی کے متولی نے کہا کہ عالمی استکبار کے بھرپور تعاون کے باوجود بھی صیہونی غاصب حکومت،ایرانی قوم کے فولادی عزم و ارادے میں ذرّہ برابر بھی لغزش پیدا نہ کرسکی،لہذا دشمن مایوس ہوااور شکست تسلیم کرلی،ایرانی قوم نے یہ ثابت کر دیا کہ ایک بابصیرت،بہادر،مومن اور دور اندیش راہنما کی قیادت میں کی جانے والی استقامت ؛پلید اور بے رحم دشمنوں کے بموں اور میزائلوں پر بھی غالب آجاتی ہے ۔
آیت اللہ مروی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں کو آیت«صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ » کا مصداق جانتے ہوئے کہا کہ اس ملک و ملت کے دشمن ان الٰہی اور توحیدی حقائق کو سمجھنے سے قاصرہیں اور وہ یہ نہیں جانتے کہ امام حسین(ع) کے ملک کا مطلب کیا ہے ، امام رضا(ع) کے ملک سے دشمنی کا مطلب کیا ہے ۔
آستان قدس رضوی کے متولی نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سلام ہو ان جرنیلوں، سائنس دانوں، معصوم بچوں، خواتین اور مردوں پر جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ایرانی قوم کو عزت و اقتدار دیا۔خدا کا سلام ہو ایران کی مومن عوام پر جو پہاڑ کی طرح استوار کھڑی رہی اورجس نے قرآن و اہلبیت(ع) اور عاشورائی تعلیمات سے متمسک ہوتے ہوئے اور اتحاد و یکجہتی کے ساتھ دشمن کو ذلیل و خوار کیا۔
خدا کا سلام ہو ہمارے مقتدر، شجاع اور دور اندیش رہبر و راہنما پر جو اپنے پختہ ایمان سے حاصل ہونے والے اطمینان اور سکون کی وجہ سے عصر حاضر میں عزت و حریّت کی واحد آواز ہیں،یہ تمام عزتیں،اقتدار، حریّتیں اور یکجہتیاں حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کے قیام سے پھوٹتی ہیں۔
سعادت حاصل کرنے کے تین مراحل
آیت اللہ مروی نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں کہا کہ دینی و قرآنی تعلیمات میں سعادت و عاقبت بخیری کےتین بنیادی مراحل بیان کئے گئے ہیں، اگرانسان ان مراحل کو صحیح طریقے سے طے کر لے تو وہ اللہ کا قرب اور ابدی سعادت حاصل کر لیتا ہے ،لیکن اگر وہ کسی بھی مرحلے میں ناکام ہوگیا تو وہ گمراہی میں جا پڑے گا۔
انہوں نے پہلے مرحلے کو حق و باطل کی پہچان قرار دیتے ہوئے کہا کہ صحیح اور نجات بخش دین داری کا پہلا قدم حق و باطل کی درست پہچان ہے ، عاشورا محض ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک مکتب ہے جس کی تعلیمات قرآن سے لی گئی ہے ،یہ یوم عاشور اور محرم و صفر ہیں جنہوں نے اسلام کو زندہ رکھا ہوا ہے ۔
آستان قدس رضوی کے متولی نے مزید یہ کہا کہ پیغمبر خدا(ص) اسلام کے بانی تھے اور حضرت امام حسین(ع) اسلام محمدی(ص) کی بقا کا باعث بنے ،واقعۂ عاشورا میں جو افراد جو امام حسین(ع) کے خلاف کھڑے ہوئے ان میں سے کچھ ایسے تھے جو حق و باطل کونہ پہچان سکے ،بنی امیہ کی حکومت کے پروپیگینڈوں کی وجہ سے حق چھپ گیا تھا اور وہ لوگ امام معصوم(ع) کو نعوذ باللہ رسول اللہ(ص) کے دین سے خارج سمجھتے تھے۔
انہوں نے دوسرے مرحلے کو حق کے راستے پر چلنا قرار دیتے ہوئے کہا کہ حق و باطل کی پہچان کے بعد اگلا قدم حق کے راستے پر چلنا اور حقیقت کے احیاء کے لئے قربانی دینا ہے ،بہت سے لوگ حق کو پہچانتے تو ہی لیکن اس راستے میں قربانی دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور اگر حق کے راستے میں مشکلات آئیں تو وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں ،واقعۂ کربلا میں اس کی مثال مدینہ والے ہیں۔
آیت اللہ مروی نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مدینہ والوں کے لئے امام حسین(ع) کی امامت کا حق ہونا اور بنی امیہ کی حکومت کا غاصبانہ ہونا واضح تھا ،انہوں نے پیغمبر خدا(ص) اور امیرالمؤمنین(ع) کو دیکھا تھا اور اسلام کو بنی امیہ کے پروپیگنڈے سے نہیں بلکہ رسول اللہ(ص) کی زبان سے سیکھا تھا لیکن وہ حق کی حاکمیت و اقتدار کے لئے قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں تھے ، اسی لئے ابا عبد اللہ الحسین (ع) نے مدینہ سے نکلتے وقت پیغمبراکرم(ص) کے مزارپرفرمایا:’’یا رسول اللہ(ص) آپ گواہ رہنا کہ ان لوگوں نے مجھے تنہا چھوڑ دیا اور حق کے دفاع میں کوئی قدم نہیں اٹھایا‘‘۔
انہوں نے تیسرے مرحلے کو حق پر ثابت رہنا قرار دیتے ہوئے کہا کہ حق کی پہچان اور حق کی طرف حرکت کافی نہیں ہے بلکہ الٰہی امتحان کے وقت ثابت قدم رہنا سعادت کی آخری شرط ہے ،ممکن ہے کوئی شخص ابتدائی مراحل کو بڑے اچھے انداز میں طے کرلے لیکن جب سختیوں سے سامنا ہو تو کمزور پڑ جائے ۔
آیت اللہ احمد مروی نے واقعہ کربلا میں کوفہ والوں کے رویے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کوفہ والے نہ شام والوں کی طرح تھے کہ جن پر حق مشتبہ ہو گیا تھا اور نہ ہی مدینہ والوں کی طرح تھے جنہوں نے ابتدا ہی سے امام کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا تھا ،اہل کوفہ کے لئے حق و باطل بالکل واضح تھا ،یہاں تک کہ انہوں نے سینکڑوں خطوط اور ہزاروں دستخطوں کے ساتھ ابا عبد اللہ ا لحسین(ع) کو دعوت دی اور کہا کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائیے ،ہمارے پاس آپ کی حمایت میں قربان ہونے کے لئے فوج تیار ہے
گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اہل کوفہ کا مسئلہ یہ تھا کہ اگرچہ انہوں نے پہلے دو مراحل تو پار کر لئے لیکن تیسرے مرحلے یعنی استقامت اور ثابت قدمی میں ناکام ہوگئے اور پیچھے ہٹ گئے ۔
ثابت قدم رہنا ، ایمان والوں کا سب سے اہم فریضہ ہے
آستان قدس رضوی نے اس بیان کے ساتھ کہ ایمان والوں کا سب سے اہم فریضہ ثابت قدم رہنا ہے کہا کہ حق کی پہچان اور اس کی طرف حرکت ابتدائی قدم ہیں ،حقیقی سعادت و خوشبختی ثابت قدم رہنے میں ہے ، خداوند متعال سورہ ہود کی آٰیت نمبر 112 میں ارشاد فرماتا ہے ’’ فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ‘‘(جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے ثابت قدم رہو۔۔۔)۔
انہوں نے ایک تاریخی روایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ روایت میں ملتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ(ص) مسلمانوں کو ہمیشہ نصیحت فرماتے تھے ’’ثابت قدم رہوکیونکہ یہ عمل کا وقت ہے ‘‘نیز منقول ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد کوئی بھی رسول اللہ(ص) کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھ سکا ،کیونکہ مسلمانوں پر ثابت قدمی کی بھاری ذمہ داری عائد کر دی گئی تھی۔
آیت اللہ مروی نے اس بیان کے ساتھ کہ دشمن ایمان والوں کی ثابت قدمی کو توڑنا چاہتا ہے کہا کہ دشمن کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ مومنوں کی استقامت و ثابت قدم کو ختم کر دیں ، جنگ احد کے بعد ابوسفیان نے پیغمبر گرامی اسلام(ص) سے کہا تھا کہ اگلے سال اسی جگہ پر تم سے بدلہ لینے آئیں گے لیکن مقررہ وقت پر مشرکین قریش لڑنے کے لئے تیار نہ تھے ، اس وقت ابوسفیان کا واحد ہتھیار مومنوں کی مزاحمت و استقامت کو توڑنا تھا ،چنانچہ اس نے مدینہ میں جاسوس بھیجے تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کر کے انہیں کفار سے مقابلہ کرنے سے روک سکیں۔
آستان قدس رضوی کے متولی نے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان جاسوسوں نے کوشش کی کہ مشرکین کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے مومنوں کے دلوں میں خوف پیدا کریں، لیکن پیغمبر گرامی اسلام(ص) کے مکتب میں تربیت پانے والے مسلمانوں نے مضبوط ایمان اور ثابت قدمی کے ساتھ ان سازشوں کا مقابلہ کیا ، قرآن کریم میں آیا ہے کہ جس قدر دشمن کے جاسوس مشرکین کی فوجی طاقت اور جنگی ساز و سامان کا مظاہرہ کرتے ، مدینہ کے مسلمانوں کا ایمان اور استقامت اسی قدر بڑھتا جاتا تھا اور وہ کہتے تھے ’’ قَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ‘‘(اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز اور مددگار ہے )۔

آستان قدس رضوی کے متولی نے غاصب صیہونی حکومت کے خلاف ایران کی فتح کا راز امام حسین(ع) کی ثابت قدمی اور استقامت سے متاثر ہونا قرار دیا ۔
News Code 6771
آپ کا تبصرہ