آستان نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ حضرت امام حسین(ع) اور ان کے با وفا ساتھیوں کے سوگ کے ایّام کی مناسبت سے ہم نے آستان قدس رضوی میوزیمزکے ثقافتی خزانوں اورڈاکیومینٹیشن ڈیپارٹمنٹ اور آثار کے تشہیری شعبے کے سربراہ جناب عادل مطوری حسین سے گفتگو کی اور اس دوران انہوں نے ہمیں میوزیم میں موجود عاشورا سے متعلق چند منتخب اورقیمتی فن پاروں کا تعارف کرایا۔
استاد فرشچیان کی مصوّری کے نادر فن پارے
جناب عادل مطوری حسین نے بتایا کہ ’’عصرعاشورا‘‘ سے متعلق پینٹنگ،میوزیم میں موجود عاشورائی نوادرات میں سے ایک شاہکار ہے جوکربلا میں عصرعاشورامام حسین(ع) کی سواری کا واپس خیموں کی طرف پلٹنے کے المناک مناظر کی عکاسی کرتی ہے۔
گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ شاہکار استاد محمود فرشچیان نے 1976 میں 98×73 سینٹی میٹر کے سائز میں ایکریکلک ٹیکنیک اورمصوری کے انداز میں بنایا تھا اور 1990 میں حرم امام علی رضا علیہ السلام کے میوزیم کو عطیہ کیا۔
جناب مطوری حسین کا مزید یہ کہنا ہے کہ ’’ہدیہ عشق‘‘ نامی پینٹنگ جسے حضرت علی اصغر(ع) کے نام سےبھی جانا جاتا ہے یہ بھی استاد فرشچیان کی جانب سے حرم مطہر رضوی میوزیم کو عطیہ کی گئی ، یہ شاہکار95 × 72 سینٹی میٹر کے سائز میں ایکریلک ٹیکنیک کے ساتھ 2002 میں تخلیق کیا گیا اور 2003 میں حرم کے میوزیم کو عطیہ کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس ماہر اور مشہور آرٹسٹ نے اپنے اس فن پارے میں حضرت علی اصغر(ع) کو حضرت امام حسین(ع) کے ہاتھوں پر دکھایا ہے ،اس پینٹنگ میں اس لمحہ کو دکھایا گیا ہے جب امام حسین(ع) کے ششماہے کے گلے پر تین شعبوں والا تیر لگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس پینٹنگ میں حضرت علی اصغر(ع) کے دست مبارک نیچے کی جانب ڈھلک جانا ان کی شہادت کی علامت ہے اور امام حسین(ع) نے اپنے بچے کو جس طرح دونوں ہاتھوں پرلیا ہوا ہے خدا کے حضور ہدیہ کرنے اور دعا کی حالت کو ظاہر کرتی ہے ۔
جناب مطوری حسین نے ’’شام غریباں‘‘ کی پینٹنگ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ فن پارہ بھی استاد فرشچیان کی مصوری کا شاہکار ہے جسے انہوں نے 2015 میں143×123 سینٹی میٹر سائز میں تیار کیا اور اسی سال میں حرم کے میوزیم کو بھی عطیہ کیا۔
گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ پینٹنگ درحقیقت ’’عصر عاشورا‘‘ پینٹنگ کی کہانی کا تسلسل ہے جس میں فنکار نے کربلا کے سانحے کو ’’شام غریباں‘‘ کی دردناک رات کی صورت میں پیش کیا ہے ، اس پینٹنگ میں اہلبیت(ع) اورواقعۂ کربلا کے بازماندگان ایک دردناک اور المناک فضا میں اپنے شہداء کے غم میں سوگوار اور نوحہ کنا ں دکھائی دیتے ہیں۔
مزید یہ بتایا کہ ’’پرچمدار حق؛حضرت ابوالفضل(ع)‘‘ اور’’عرش بر زمین؛ گودی قتلگاہ‘‘ نامی پینٹنگز بھی منجملہ ان آثار میں شامل ہیں جنہیں استاد فرشچیان نے حرم امام رضا(ع) کے میوزیم کو عطیہ کیا ہے ان پینٹنگز میں بھی واقعہ کربلاکے تاریخی واقعات کو دیگر پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے ۔
’’عاشورا‘‘ کے عنوان سے معرق کاری کی پینٹنگ کا شاہکار
جناب عادل مطوری حسین نے بتایا کہ ’’عاشورا‘‘ کے عنوان سے معرق کاری کی پینٹنگ کا شاہکار بھی اس میوزیم کے نادر فن پاروں میں سے ایک ہے جسے استاد فرشچیان کی پینٹنگ’’عصر عاشورا‘‘ سے متاثر ہو کر منبت کاری،معرق کاری اور خاتم کاری کی روش سے تیار کیا گیا ہے اوراس پینٹنگ بورڈ کے حاشیے پر معرق کاری کے ذریعہ زیارت عاشور تحریر کی گئی ہے ۔
معرق کاری کا یہ شاہکار 6×4 مربع میٹرپرتخلیق کیا گیا ہے جو چھ الگ الگ حصوں پر مشتمل ہے جنہیں آپس میں جوڑا جا سکتا ہے اس نادر فن پارے کی تخلیق کے لئے 30 قسم کی لکڑیاں استعمال میں لائی گئیں جو ایک لاکھ ایک ہزار دو سو پچاس ٹکڑوں پر مشتمل ہیں ،اس کے علاوہ کچھ مقدار میں قدرتی صدف،چاندی،تانبا،پیتل اور ایلومینیم کا استعمال بھی کیا گیا ہے اس پینٹنگ بورڈ کے اطراف میں پیتل کی پٹی سے کام کیا گیا ہے ۔
جناب مطوری حسین گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ معرق کاری کا یہ شاہکار،محمد تواناکی کاوشوں اور ابوالفضل بہرامی، علی رضا سپہری، سید حجت اللہ رئیسی اور مصطفیٰ توانا کے تعاون سے 2002 میں تخلیق کیا گیا اور 2003 میں حرم امام رضا(ع) کےمیوزیم کو کرج شہر کی بسیج کی جانب سے عطیہ کیا گیا۔
’’عصر عاشورا‘‘ کے عنوان سے قالین پینٹنگ
انہوں نے عصر عاشورا کے نام سے قالین پر بنی پینٹنگ کو بھی آستان قدس رضوی کو عطیہ کی جانے والی پینٹنگز میں سے جانتے ہوئے کہا کہ اس پینٹنگ کو یوم عاشور کی مناسبت سے تخلیق کیا گیا ہے جسے استاد یزدچی نے 197×140 سینٹی میٹر کے سائز کے ساتھ تبریز میں تیار کیا تھا اور1993 میں اس شاہکار کو مشرقی آذربائیجان کی گورنریٹ کی جانب سے رہبر معظم انقلاب اسلامی کو تحفےکے طور پر دیا گیا تھا۔
تعزیہ خوانی کے مناظر پر مشتمل مصوری کے شاہکار اور روایتی قہوہ خانہ اسٹائل کی پینٹنگز
انہوں نے مزید پینٹنگز بورڈز کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ محرم سے متعلق ایک اور شاہکار جو قابل ذکر ہے جسے استاد شمس نے 1927 میں قہوہ خانہ اسٹائل میں 79×5/76 سینٹی میٹر سائز کے ساتھ کپڑے پر تخلیق کیا اور 1978 میں اسے حرم کے میوزیم کو عطیہ کیا گیا۔ اس پینٹنگ میں یوم عاشور اور اس کے بعد والے دن کے واقعات کی مصوری کی گئی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس نورانی وملکوتی بارگاہ کے دیگر نادر ترین فن پاروں میں ’’تعزیہ خوانی اور یوم عاشورا کے واقعات‘‘ کی پینٹنگ بھی شامل ہے ، جسے رنگ و روغن کی تکنیک سے کپڑے پر قہوہ خانہ اسٹائل میں 210×733 سینٹی میٹر کے سائز کے ساتھ قاجار دور کے آغاز میں تخلیق کیا گیا تھا۔ یہ پینٹنگ اپنے زمانے کی سب سے بڑی قہوہ خانہ اسٹائل پینٹنگ سمجھی جاتی تھی۔"
اس پینٹگ کے حاشیے پر محتشم کاشانی کے ترجیعی بند کو خط نستعلیق میں تحریر کیا گیا ہے ۔
عاشورائی مضامین پر مشتمل خوشنویسی کے بورڈز
آستان قد رضوی میوزیمز میں خوشنویسی کے دو بورڈ پائے جاتے ہیں جن میں سے ہر ایک پر حافظ شیرازی کا عاشورائی مضمون پر مشتمل ایک مصرعہ نستعلیق خط میں علی رضا کد خدائی کے قلم سے رقم کیا گیا ہے ۔
جناب مطوری حسین نے اس شعر’’ در زلف چون کمندش ای دل مپیچ کانجا / سرها بریده بینی بیجرم و بیجنایت‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خوشنویسی کے یہ دونوں بورڈ2010 میں 113×69 سائز کے ساتھ تحریر کئے گئے اور حرم امام رضا(ع) کو عطیہ کئے گئے ،یہ بورڈز سونے کے پانی سے مزیّن ہیں اور8 پر والے شمسے سے آراستہ ہیں ۔

آستان قدس رضوی بیش قیمت اور نادر ترین تاریخی فن پاروں اور آثار کا مجموعہ ہے جن میں سے کچھ کربلا کے واقعہ کی یاد دلاتے ہیں ،ان آثار کو حضرت ابا عبد اللہ الحسین (ع) سے والہانہ محبت کی بنا پر تخلیق کیا گیا جنہیں بعد میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی نورانی بارگاہ کے لئے عطیہ کر دیا گیا۔
News Code 6761
آپ کا تبصرہ