عتبہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق؛ حرمِ مطہر امام رضا (ع) میں خدمت کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی روضہ منورہ کی عمارت پرانی ہے۔ اگرچہ یہ چیز تاریخی نصوص میں نایاب ہے اور اس کے آثار مشہد شہر کی تشکیل کے بعد کئی صدیوں تک تلاش کیے جانے چاہئیں۔
تاہم، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ حرمِ مطہر رضوی (ع) میں خادموں کی باقاعدہ خدماتی سرگرمیوں کا تعلق مشہد شہر کے قیام کے بعد کی کئی صدیوں سے ہے۔ روضہ منورہ کی عمارت کے قیام کے ساتھ ہی، یعنی مرقد مطہر کے گرد چاردیواری کے قیام کے ساتھ ہی امام علیہ السلام کے عقیدتمندوں میں سے ان کے روضہ کے معاملات کو سنبھالنے کے لیے اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کر دیا۔
حرمِ مطہر رضوی (ع) کے پہلے مؤذن اور قاری ابو نصر نیشاپوری جیسے لوگ، جو اس مقام مقدس سے شفا کے حصول کی خاطر نیشاپور سے مشہد آ گئے تھے اور مزار رضوی (ع) کے مجاور بن گئے۔ اسی طرح مشہد مقدس میں سادات کے قیام کے ساتھ ہی جن میں سب سے پہلے سادات موسوی اور پھر سادات رضوی وہاں آ بسے، ان سے حرمِ مطہر امام رضا (ع) کے خادموں کی موزوں اور منظم انداز میں سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ پھر زائرین کی تعداد جیسے جیسے بڑھتی گئی تو اس تعداد اور مجاوران کی تعداد میں اضافے کو دیکھتے ہوئے صفویہ دور میں خدام کے سسٹم میں بھی زیادہ مربوط ترتیب پائی گئی۔ وہ نظم و ضبط جو آج تک بھی کم و بیش برقرار ہے اور زائرین اور حرم امام رضا علیہ السلام کے مجاورین کی خدمت رسانی میں موجود رہا ہے۔
مشہد مقدس اور متبرک مقامات کی تاریخ میں خواتین کی بھرپور موجودگی
حرمِ مطہر رضوی (ع) کی خدمت کی بررسی میں جو موضوع شاید کم ہی نظر آتا ہے اور اسی وجہ سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا تاریخی ریکارڈ محدود ہے اور اس موضوع میں شامل افراد نایاب ہیں، وہ ہے " حرمِ مطہر رضوی (ع) کے زائرین کی خدمت میں خواتین خدام کی خدمات"۔ اس کا مطلب یہ نظر آتا ہے کہ شروع سے ہی یہ مرد حضرات ہی تھے جو حرمِ مطہر رضوی (ع) میں خدمات انجام دیا کرتے تھے اور زائرین کی خدمت اور حرم مطہر ترقی میں اہم کردار ادا کیا کرتے تھے۔ لیکن تاریخ کا جائزہ اور دستاویزات و شواہد کا جائزہ لینا کچھ اور ہی کہتا ہے۔
شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "عیون اخبار الرضا (ع)" میں تقریباً ایک ہزار سال قبل حرم مطہر رضوی (ع) میں رونما ہونے والے معجزات کا حوالہ دیتے ہوئے نوغان کے علاقہ کی ایک خاتون کی موجودگی کا ذکر کیا ہے جو ہر روز رہ حرمِ مطہر کے چراغوں میں تیل بھرنے اور وہاں صفائی کے لئے مشہد آیا کرتی تھی اور ان امور کی انجام دہی کے بعد اپنے گھر لوٹ جایا کرتی تھی۔
یہ روایت حرمِ مطہر رضوی (ع) میں خادم کی موجودگی کے بارے میں شاید سب سے پرانی روایت ہے اور اس میں مرکزی کردار ایک خاتون نے ادا کیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم اس خاتون کا نام نہیں جانتے۔ اس کے بعد کے ادوار میں بھی خواتین نے حرمِ مطہر رضوی (ع) کی حفاظت اور نگہداری میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور اس مقدس مقام کی ترقی اور خدمت میں سرگرم عمل رہی ہیں۔
گوہر شاد خاتون، مسجد گوہر شاد کی بانی، کچھ لوگ مشہد شہر کو اس خاتون کی تعمیراتی سرگرمیوں سے پہلے اور بعد کے دو ادوار میں بھی تقسیم کرتے ہیں، مشہد کی تاریخ کی سب سے نمایاں سرگرم خواتین میں سے ایک ہیں۔ ان کے علاوہ ہم "فاطمہ طوسی" کا نام ذکر کر سکتے ہیں۔ مشہد کی ایک خاتون جس نے مغلیہ دور میں منگولیا میں منگولوں کے ظاہر ہوئی اور شہنشاہ کی ماں کی خاص ندیمہ اور خادمہ بنیں اور اپنے اس عہدے کو مشہد اور حرمِ مطہر رضوی (ع) پر حملے کو روکنے کے لیے استعمال کیا۔ یا اسی طرح "صوفیان خلیفہ کی بیوی"، کہ جس کا شوہر "شاہ طہماسب اول صفوی" کے دور میں مشہد کا حکمران تھا۔ مشہد شہر میں اپنے شوہر کی غیر موجودگی کے دوران، اس نے ازبک حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کی کمان سنبھالی اور شہر اور حرمِ مطہر رضوی (ع) کو دشمن کے ہاتھ جانے نہیں دیا۔ اس بنا پر کچھ افراد کو حرمِ مطہر رضوی (ع) کی ترقی اور زائرین اور اس کے مجاورین کی خدمت میں خواتین کے کردار کے بارے میں اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
بعض تاریخی دستاویزات پر طائرانہ نگاہ
حرمِ مطہر رضوی (ع) میں مردوں کی طرح خواتین زائرین کی موجودگی شروع سے ہی وسیع اور بے شمار رہی ہے۔ اس حد تک کہ حرمِ مطہر (ع) کے متولی ان کے لیے علیحدہ زیارت اور عبادت گاہیں بنانے پر مجبور ہو گئے۔ ان مشہور زیارت گاہوں میں سے ایک روضہ منورہ کے شمال مشرق میں واقع "مسجد ریاض" تھی، جسے محل وقوع کے اعتبار سے ہم اسے "مسجد بالاسر" کے مساوی سمجھیں جو غزنوی دور میں ابوالحسن عراقی دبیر کے ہاتھوں تعمیر کی گئی تھی۔ اب اس مسجد کو "رواق دارالفیض" میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور یہ "رواق توحیدخانہ" کے جنوب میں واقع ہے۔ پرانے زمانے میں مسجد ریاض کو "خواتین کی مسجد" بھی کہا جاتا تھا اور آستان قدس رضوی (ع) کی دستاویز اور پریس سنٹر کے آرکائیوز کے ساتھ موجود دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جگہ خواتین کی عبادت گاہ تھی اور ان کے لیے وقف تھی۔
سنہ 1335ہجری/1295شمسی اور "ظہیر الاسلام" کے متولی ہونے کے دور کی ایک دستاویز موجود ہے، جس کا نمبر 104583 ہے (تصویر نمبر ایک)، کہ جس میں اس مسجد کے خادم کا حکم "بی بی عالم آغا" کو جاری کیا گیا۔ یہ ان خادماؤں میں سے ایک ہیں جو اس دور میں مسجد ریاض کے امور کی انچارج تھیں۔
ایسی بہت سی دستاویزات ہیں جو مختلف تاریخی ادوار میں حرمِ مطہر رضوی (ع) میں خواتین کی خدمت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، آستان قدس رضوی دستاویزی مرکز میں دستاویز نمبر 5/16832 (تصویر نمبر دو) کا تعلق اشرف السلطنہ اور بہجت الدولہ کے واجبات کی ادائیگی سے ہے، جو شعبان 1315ہجری/ 1276شمسی میں حرمِ مطہر رضوی (ع) میں موجود خواتین خادماؤں کی موجودگی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان میں سب سے دلچسپ صفوی دور سے متعلق ایک دستاویز ہے جو کہ 1026ہجری/996شمسی (تصویر نمبر تین) اور شاہ عباس اول کے دور حکومت میں لکھی گئی تھی۔ ایک دستاویز جو کہ ایک خاتون بنام "آغا فاطمہ" کو حرمِ مطہر رضوی (ع) کے واجبات کی ادائیگی کی تصدیق کرتی ہے۔ یہ خاتون حرم مقدس میں زیارت پڑھنے کی خدمت میں مصروف تھیں۔ آستان قدس رضوی (ع) کے مرکز دستاویزات اور مطبوعات کے آرکائیوز میں اس طرح کی بہت سی دستاویزات موجود ہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حرمِ مطہر رضوی (ع) میں خواتین کی خدمات کی تاریخ موجودہ دستاویزات کی صداقت اور تاریخی اسناد کے اعتبار سے کسی بھی طرح مردوں کی خدمت کی تاریخ سے کم نہیں ہے اورحتی بعض ادوار میں تو یہ ان پر غالب بھی رہی ہے۔
آپ کا تبصرہ